اے کاش کہیں ایسا ہوتا!
نئے سال کے اختتام سے چند روز قبل قومی راجدھانی دہلی میں میڈیکل کی ایک طالبہ کی بس میںاجتماعی آبروریزی کے واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔میڈیکل کی یہ مظلوم طالبہ۱۳؍دنوں تک حیات و موت کی کشمکش میںمبتلا رہنے کے بعد بالاخر ۲۹؍دسمبر کی صبح سنگا پور کے ایک اسپتال میںزندگی کی جنگ ہار گئی۔موت برحق ہے اور یہ نظام خالق کائنات کے ہاتھ میں ہے،اس کا علاج نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہوگا۔حکومت ،ڈاکٹر،میڈیکل،دوائیں یا کسی طبی معالج نے کبھی ایسا کارنامہ نہیں انجام دیاکہ مرنے والے کو بچالیا گیا ہو۔انسان زندگی کی خاطر موت سے پنجہ آزمائی کی پوری کوشش کرتا ہے اور اس جنگ کو جیتنے کی ہر ممکن تدبیر اپناتا ہے، مگر جیت ہمیشہ موت کی ہوئی ہے۔اپنی نوعیت کےاس منفرد معاملے میں بھی حکومت،انتظامیہ اور ڈاکٹروں کے لاکھ جتن کے باوجود متاثرہ طالبہ کو نہیں بچایا جا سکا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ مسلسل دو ہفتوں تک الیکٹرانک میڈیا نے جس طرح سے اس معاملے پرپوری توانائی صرف کی اور انا ہزارے کی بدعنوانی مخالف تحریک کی طرح اس احتجاج کوبھی بے نظیر بنا دیا۔سوال یہ ہے کہ کیا ملک میںاجتماعی آبروریزی کا دل دہلا دینے والا یہ ک...