ہندوستان کاہر شہر بن گیا’شاہین باغ‘


ڈاکٹر شہاب  الدین ثاقب

قومی راجدھانی دہلی کے جامعہ نگر میں واقع ’شاہین باغ مصر کا تحریر اسکوائر ثابتہو رہا ہے۔مصرکے دارالحکومت قاہرہ کے’تحریر اسکوائر ‘پر ۲۵؍ جنوری ۲۰۱۱ء میں وہاں کے سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف مصرکے عوام نے جمع ہو کر تحریک شروع کی تھی۔ٹھیک اسی طرح ہندوستان کی مرکزی حکومت کی غیر جمہوری پالیسی اور عوام الناس میں تفریق پیدا کرنے والے قانون قومی شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے )کے خلاف محض چند خواتین اور طلبہ کی محدود تعداد سے شروع ہوئی یہ تحریک آج اتنی مضبوط اور مستحکم ہوگئی ہےکہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیامیں اس کی گونج سنائی دینے لگی ہےاور آج ہندوستا ن کا ہر شہر شاہین باغ بن چکا ہے۔قومی شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے)نیشنل رجسٹریشن آف سیٹیزن(این آر سی)اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر(این پی آر)کے خلاف احتجاج کررہے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے خلاف پولیس کارروائی اور بربریت کے خلاف اٹھی یہ آوازدھیرے دھیرے ملک بھر میں بلند ہونے لگی۔سوشل میڈیا اور چند قومی میڈیا کی مثبت کوریج کے سبب’شاہین باغ‘کا احتجاج پورے ہندوستان میں پھیل گیا۔اس وقت ملک کی شاید ہی کوئی بڑی یوینورسٹی اور مشہور تعلیمی ادارے بچے ہوں جہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جواہر لال یونیوسٹی(جے این یو) میں غنڈہ عناصرکے حملے اور تماشائی بنی دہلی پولیس کی یکطرفہ کارروائی نے لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کی اور وہ آہستہ آہستہ شاہین باغ کی خواتین کا ساتھ دینے کے لئے پہنچنے لگے۔پھرشاہین باغ کے پرامن طویل احتجاج کو مثال کے طور پیش کیا جانے لگا۔دہلی کی کپکپاتی سردی میں کھلے آسمان کے نیچے تقریبا ایک ماہ سےسڑک پر بیٹھی،بزرگ ،جوان خواتین،بچے اور بچیاں کے جوش و جذبے کی حمایت میں اب دوسرے شہروں کے لوگ بھی آنے لگے ہیں۔
۱۲؍جنوری ۲۰۲۰ءکی صبح جب دہلی میں آفتاب طلوع ہوا تو دہلی والوںکو یہ امید ہرگز نہیں تھی کہ آج شاہین باغ کا احتجاج مصرکے ’تحریر اسکوئر‘جیسے احتجاج میں تبدیل ہوکر تاریخ میں درج ہوجائے گا۔مگر جیسے جیسے شام ڈھلنے لگی عوام کا ٹھاٹھے مارتا سیلاب جامعہ نگر کی مختلف سڑکوں سے ہوتاہوا شاہین باغ کی طرف رواں دواں تھا۔یہاں آنے والی سڑکوں پر تاحد نگاہ صرف اور صرف لوگوں کے سر نظرا ٓرہے تھے۔غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ڈیڑھ سے دولاکھ کے قریب لوگ مرکزکی مودی حکومت کی ملک بانٹنے والی غیرجمہوری پالیسی کے خلاف احتجاج میں شرکت کے لئے شاہین باغ پہنچ چکے تھے۔حالانکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب کچھ بھگوا تنظیموں سے وابستہ افراد شاہین باغ سے متصل سریتا وہار میں جمع ہوکر یہ مطالبہ کرنے لگے کہ ایک ماہ سے بند دہلی اور نوئیڈاکو جوڑنے والی اس شاہراہ کو کھلوایا جائے۔حدتو تب ہوگئی جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی سینئرلیڈر میناکشی لیکھی نے دھمکی آمیز لہجے میںیہاں تک کہہ دیاکہ ’بہتریہی ہےکہ شاہین باغ کے مظاہرین خودہی اپنے گھروں کو لوٹ جائیں، اسی میں ان کی عافیت ہے۔اس طرح کی دھمکیاں یہاں کے احتجاج کاروں کو بھگواٹولہ کی طرف سے مسلسل مل رہی ہیں۔مگر یہاں پر موجود احتجاج میں شامل خواتین کےساتھ کھڑے لوگوں کو اس کی پروا نہیں۔وہ ہر طریقے سے یہاں نظم و نسق بنائے ہوئے ہیں مختلف نظموں،گیتوں،ترانوںاور آزادی کے نعروں سمیت رنگ برنگ کی تصاویر و نعروں کے ذریعہ سے لوگوں میں جوش بڑھا رہے ہیں۔ مختلف شعبوں سے وابستہ معزز شخصیات،ذرائع ابلاغ ،سماجی کارکنوں،دانشوروں اور طلبہ تنظیموں کے نمائندے یہاں پہنچ کرشاہین باغ کے احتجاج میں شامل خواتین کے عز م و ہمت کو سلام پیش کرتے ہوئے قومی یکجہتی کی مثال پیش کررہےہیںاور فرقہ پرست لوگوں کے خلاف متحد ہوکر اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔اتوارکی جس صبح کا ذکر اوپر کیاگیا ہے اسی صبح شاہین باغ کے مظاہرے میں ہندو مسلم سکھ اور عیسائی کے معزز پیشواؤں نے شریک ہوکر دعائیہ مجلس کا اہتمام کیااور قومی یکجہتی کی بہترین مثال پیش کی۔سی اےاے اور این آرسی کے خلاف ملک مسلمانوں کے اتحادکے لئے بھی شاہین باغ اور ملک بھر ہورہے احتجاج کو یاد کیا جائے گا۔اس وقت جس طرح سے مسلمان جمہوریت پسند برادران وطن کے ساتھ متحد ہوکر کھڑے ہیں ا سکی نظیر نہیں۔یہی وجہ ہےکہ شاہین باغ کی آواز اب ملک کی کئی ریاستوں اور بیرون ممالک میں بھی گونجنے لگی ہے۔بہار کی راجدھانی پٹنہ کے پھلواری شریف،اتر پردیش کے الہ آباد، کلکتہ کے پارک سرکس اور مہاراشٹرکے ضلع پونا کے علاوہ بھی مختلف ریاستوں کے چھوٹے بڑے شہروں   میں خواتین نے غیر معینہ احتجاج شروع کرکے حکومت کو ایک پیغام دے دیا ہےکہ :
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے
احتجاج کار خواتین نے واضح کردیا ہےکہ حکومت اسے کمزور سمجھنے کی غلطی نہ کرے،اب انہوںنے اپنے آنچل کو پرچم بنا لیا ہے اور یہ حقیقت ہےکہ عورتیں جب میدان میں اتر جاتی ہیں تو اپنے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوانے پر مجبو رکر دیتی  ہیں۔ان کی جرات و بہادری کے قصے صرف کتابوں میں پڑھنے کے لئے نہیں ہیں۔ اس لئے دنیا کی کوئی طاقت اس وقت تک انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کرسکتی جب تک کہ نریندرمودی حکومت اس متنازع قانون کو واپس نہیں لے لیتی ہے۔اپنے ملک کے آئین کے تحفظ،اپنے حقوق کی بازیابی اورتعلیمی اداروں کے بقا اور طلبہ و طالبات پر حملہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہونے تک ان کی یہ جنگ جاری رہے گی۔
خواتین کے عزم و حوصلے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سی اے اے اور این آرسی کے خلاف دہلی کے جامعہ نگر کے شاہین باغ کے پرامن احتجاج  سے اٹھی یہ چنگاری اب ملک بھر میں شعلہ بنتی جارہی ہے۔ ایسے موقع پر جب کہ معاندین و مخالفین کی طرف سے ان مظاہرین خواتین کے خلاف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایاجارہا ہو اور دوسری طرف پولیس حملہ کرنے کی تاک میں بیٹھی ہو منتظمین کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ورنہ معمولی سی لغزش بھی ان کی محنت پر پانی پھیر سکتی ہے۔شاہین باغ کا مظاہرہ اگر ملک بھر میں نظیر بنا ہوا ہے تو اس کی اہم وجہ یہی ہےکہ نظم و نسق کے ساتھ ہرطرح کے تشدد اور اشتعال سےیہ احتجاج پاک ہے۔سوشل میڈیاکے اس عہد میں جب کہ افواہیں تیزی سے پھیلتی ہیں، واٹس ایپ ،انسٹا گرام ،ٹیوٹر اور فیس بک پر کسی بھی ریومر کی تحقیقات کیے بنا یوزرس آگے فارورڈ کرنے لگتےہیں،خاص طور پر ایسے تبصروں اور میسیج سے بچنے کی ضرورت ہے۔شاہین باغ کی طرز پر جن ریاستوں میں حکومت کے خلاف لوگ سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں وہاں بھی ان چیزوں کا خیال رکھیں اور تشدد نہیں صبر و تحمل کے ساتھ اپنی مہم کو جاری رکھیں، تاکہ مخالفین کو یہ کہنے کا موقع نہ ملےکہ یہ  احتجاج کار سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچارہےہیں۔ایسے نام نہاد دیش بھکتوں کی کمی نہیں ہے جومختلف حیلوں اور بہانوں سے اس تحریک کو کمزورکرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
(مضمون نگا رروزنامہ انقلاب دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in

Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا