سیکورٹی ایجنسیوں کے منھ پر کیجریوال کا طمانچہ





 عربوں میں  ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ عوام حکمرانوںکو دیکھتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں، اگر حکمران اچھے ہوں گے، سلاطین بہتر ہوں گے تو اس کا اثر رعایا پر بھی ہوگا، وہ بھی اپنے آپ کو بہتر کریں گے اور اگر حکمرانوں کی اخلاقی حالت خراب ہوگی تو رعایا  کی اخلاقی حالت بھی گری ہوئی ہوگی۔
ہندوستان میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دیش کے کسی  وزیر اعلیٰ نے اپنی سیکورٹی کے حوالے سے انڈین مجاہدین کے نام پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہو اور اپنے اغوا کی پولیس اور خفیہ ایجنسی کی ان پٹ کو بکواس  و سیاسی قراردیا ہو۔دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اپنے تحفظ کے تعلق سے ان مسلم قائدین کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے جنہیں انتہا پسند تنظیموں کےمبینہ ممکنہ حملوں کے پیش نظر حکومت کی طرف سےزیڈ پلس سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے۔جہاں تک ملک کی سالمیت اور انتہا پسندوں کی طرف سےاعلیٰ رہنماؤوں  کی جان کودرپیش خطرات کا سوال ہے تو اس سلسلے میں آئی بی نے کوئی پہلی بار’ یہ تیر‘ نہیں ماراہے اس سے قبل کئی بار کبھی گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی  تو کبھی بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی اور دوسرے زعفرانی نتیاؤں  کے قتل کا بہانہ بنا کر نہ جانے کتنے بے قصوروں کو پولیس فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کرچکی ہے۔یہ کون نہیں جانتا کہ کتنےمتاثرین انصاف کیلئے جدو جہد کرتے کرتے مقتول بن چکے ہیں، مگر ان فرضی انکاؤنٹروں کو لے کر گجرات کی مودی حکومت کالے کوے کو سفید کرنے میں مصروف ہے ۔یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہپولیس اور خفیہ ایجنسیاں ایک خاص حکمت عملی کے تحت اپنی  موجودگی درج کرانے کیلئے وقفے وقفے سے میڈیا میں ایسی ان پٹ دیتی رہتی ہیں جس سے کہ ملک کے عوام اور ارباب حل و عقد میں یہ پیغام جائے کہ ہماری یہ ایجنسیاں ملک کی سالمیت کے تعلق سے واقعی سنجیدہ ہیںمگر گزشتہ دو ماہ میں آئی ایم کے مبینہ بانی یاسین بھٹکل کے حوالے سےسیکورٹی ایجنسیوں نےجو چونکانے والے انکشافات کیے ہیں اس نے ہر ہندوستانی کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے، جیسا کہ پولیس دعویٰ کرتی رہی ہے۔
کیا پولیس اور سرکاری ایجنسیوں کی یہ کہانی مبنی بر حقیقت ہے کہ انڈین مجاہدین (جس کے وجود پر ہی شک وشبہ ہے)کسی ریاست خاص طور پر دہلی کے وزیر اعلیٰ کو اپنے ایک ممبر کی رہائی کیلئے اغوا کرسکتی ہے یا اس تنظیم کے پاس ایسی ایٹمی صلاحیت ہے کہ و ہ ہندوستان کے کسی شہر کو تہس نہس کرنے کا منصوبہ بنائے۔؟ ملک کا ایک بڑا طبقہ آئی بی کے اس قسم کی ان پٹ کو بارہا نظر انداز کرتا رہا ہے اوراس کے انکشاف کو ایک مخصوص طبقے پر نشانہ بتاتا رہا ہے،لیکن پہلی بارکسی ریاست کےسی ایم نے اتنا بڑا  رسک لیتے ہوئے پولیس کی کہانی پرنہ صرف یہ کہ کان نہیں دھرا، بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ حریف سیاسی پارٹیاں اس کھیل کو انجام دے کر اسے یاسین بھٹکل کے گرگوں  کی جانب منسوب کر سکتی ہیں۔
 یہ بات ذہن نشین رہے کہ گزشتہ سال۲۷؍ اگست کو ہند ۔ نیپال سرحد سے گرفتار کئے گئے انڈین مجاہدین کے بانی رکن یاسین بھٹکل کی رہائی کے لئے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا اغوا کیا جاسکتا ہے،ایسا دہلی پولیس کے سیکورٹی سیل کی ایک ٹیم نےآئی بی کے ان پٹ کا حوالہ دیتے ہوئےخدشہ ظاہر کیا تھا اور انہیں زیڈ سكيورٹي کی پیشکش کی تھی،جس پر کیجریوال نے دہلی پولیس اور مرکزی حکومت پر شدید حملہ کیا اور مرکز اور دہلی پولیس پر ان کی حفاظت کے نام پر سیاست کرنے کا الزام لگایا ۔ انہوں نے براہ راست سوال کیا کہ کیا دہلی پولیس بیوقوف ہے یا وہ کسی کے کہنے پرسیاست کر رہی ہے ؟ کیجریوال کے مطابق پولیس نے آئی بی کے ان پٹ کا حوالہ د یکر اغوا کا خدشہ ظاہر کیا تھا اور انہیں زیڈ سكيورٹي کی پیشکش کی ،ساتھ ہی یہ بھی تاکید کی کہ میں یہ باتیںمیڈیا کو نہ بتاؤں، مگر پھر انہوں نے خود جا کر میڈیا کو یہ باتیں بتادیں۔ کیجریوال نے کہاکہ یہ اعلان کرکے کیا پولیس نے مجھے خطرے میں نہیں ڈالا ہے ؟ اب کوئی بھی مجھ پر حملہ کر سکتا ہے اور وہ کہیں گے کہ یہ بھٹکل کے گرگوں نے کیا ہے ۔
یہ وہ تلخ حقائق ہیںجس پر ملک کی ہر سیاسی پارٹی کا لیڈر تلملا اٹھا  اور کیجریوال کی حقیقت بیانی کو ایک اور ڈرامہ سے تعبیر کیا۔مگر سرکاری ایجنسیوں کے ظلم کا شکار بنے افراد اس سچائی سے بخوبی واقف ہیں۔یہ اور بات ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی جیسی فرقہ پر ست پارٹیاں جو اس طرح کا کھیل ایک عرصہ سے کھیل رہی ہیں انہیں کیجریوال کے اس تیور سے سخت تکلیف پہنچی ۔مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق وہ عام آدمی پارٹی کی بڑھتی مقبولیت پر بریک لگانے کی نیت سے سڑکوں پر اتر آئیں اور ایک دوسرے معاملے کو بنیاد بنا کر چیخنے چلانے لگے۔لیکن یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ نے پارٹی کی پالیسی اور سیاست میں وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کے لئے حفاظتی گھیرا لینے سے ہمیشہ انکار کیا ہے۔اپنے ایک انٹر ویو میں انہوں نے دو ٹوک کہا تھا کہ’’اگرہماری موت ہوگی تو کوئی بچا نہیں سکتا اور اگر موت نہیں ہے تو کوئی مار نہیں سکتا،مجھ سے زیادہ ملک کے عام لوگوں کی حفاظت کی اس وقت زیادہ ضرورت ہے۔ بلاشبہ کیجریوال کا یہ عمل اسلامی عہد کی یاد دلاتا ہے جہاں خلیفۃ المسلمین کو اپنی نہیں رعایا کے تحفظ کی فکرہمہ وقت ستاتی رہتی تھی۔تاریخ کی کتابیں ایسے واقعات و حقائق سے بھری پڑی ہیں کہ مسلمانوں کے خلفاء اور اسلامی عہد حکمرانوںنے اپنی نہیں اپنے ملک کی رعایا کے جان و مال کی بلامذہب وملت حفاظت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ انڈین مجاہدین کے ذریعہ کیجریوال کے اغوا کیے جانے کے انکشاف سے قبل دسمبر ۲۰۱۳ء میں سیکورٹی ایجنسیوں نے یہ سنسنی خیز اطلاع دی تھی کہ انڈین مجاہدین کے چیف یاسین بھٹکل نے این آئی اے کو دیئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ گجرات کے شہر سورت میں ایٹمی بم حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔بھٹکل نے تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ اس نے پاکستان میں واقع اپنے باس ریاض بھٹکل سے فون پر پوچھا تھا کہ کیا وہ ایک چھوٹے ایٹمی بم کا انتظام کر سکتا ہے،اس پر ریاض نے کہا تھا پاکستان میں کسی بھی چیز کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ یاسین نے جانچ حکام کو بتایا کہ ریاض نے مجھےبتایا کہ ایٹمی بموں سے حملے کئے جا سکتے ہیں ، میں نے اس سے سورت پر حملے کے لئے ایک ایٹمی بم کا انتظام کرنے کو کہا۔جانچ رپورٹ کے مطابق یاسین نے کہاکہ ریاض نے کہا کہ اس میں ( جوہری حملے میں ) مسلم بھی مارے جائیں گے،جس پر میں نے کہا کہ ہم مساجد میں پوسٹر چسپاں کر دیں گے کہ ہر مسلمان اپنے خاندان کو لے کر چپ چاپ شہر چھوڑ دیں ، لیکن اگست میں آئی بی کی طرف سے یاسین کی گرفتاری کے بعد اس منصوبے پر کام شروع نہیں ہو سکا۔مجھے نہیں لگتا کہ آئی بی اور دوسری خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ آگے اس طرح کے انکشافات کا سلسلہ بند ہوجائےگا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی باتوں پر آنکھ موند کر یقین کرنے سے قبل اس کی صداقت پر غور فکر کرلیا جائے تاکہ جھوٹے الزام میں سلاخوں کے پیچھے کسی کی زندگی تباہ و برباد نہ ہو۔n
(مضمون نگار ’انقلاب‘ دہلی میں سب ایڈیٹر ہیں)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in

Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا