مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی
’ مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی‘کے مصداق اتر پردیش کے قانون و نظام کو شفاف بنانے کی سمت میں حکومت کی ہر کوشش ناکام اور ” الٹی ہوگئیں سب تدبیریں ،کچھ نہ دوانے کام کیا‘‘کی طرح نظر آرہی ہیں۔
ریاست میں جرائم کی متعدد سنگین وارداتوں کے سبب مسلسل سخت تنقیدوں کا سامنا کررہے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے گزشتہ دنوں بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ ’ان کی ریاست میں ’لاء اینڈ آرڈر‘کے حالات ملک کی کئی دوسری ریاستوں کی بہ نسبت بہترہیں، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ان کی حکومت حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہی ہے۔لکھنؤ میںمعیشت سے متعلق کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست میں قانون و نظام کی حالت بہتر ہے۔
دراصل اتر پردیش کی قسمت کا ستارہ اسی وقت سے گردش میں ہے ،جب 2012ء میں ریاست میں مایا وتی حکومت کوشکست دےکر موجودہ سماج وادی حکومت مکمل اکثریت سے اقتدار میں آئی۔ابھی یہ حکومت پوری طرح سنبھل بھی نہیں سکی تھی کہ حالات خراب ہونے لگے۔مختلف اضلاع میںایک کے بعد ایک فرقہ وارانہ فسادات کا ننگا ناچ شروع ہوگیا،جس میں مظلومین کو انصاف ملنا تو دور ان کی پریشانیوں پر سنجیدگی سے غور کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا،اس کے برعکس شرپسند عناصرکو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔پولیس اور اعلیٰ حکام لاپرواہو گئے،انتظامیہ پر حکومت کاعدم کنٹرول جیسے سنگین الزامات لگتے رہے۔ اور اب خواتین پر مظالم کی پے در پے ہو رہی دل دہلا دینے والی وارداتیں اکھلیش حکومت کو اور ناکارہ ثابت کر نےکے لیے کافی ہیں۔یہ وہ مسائل ہیں جن سے نہ صرف عام آدمی پریشان ہے، بلکہ پوری دینا میں صوبے کی بدنامی بھی ہو رہی ہے۔حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہیں کہ اقوام متحد ہ نے پچھلے دنوں بدایوں ضلع میں دو کم سن بہنوں سے اجتماعی جنسی زیادتی کے بعد قتل کر کے ان کی لاشیں ایک درخت سے لٹکا دینے کی انسانیت سوزحرکت کی زبردست مذمت کی اور مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کرنے اور لڑکیوں اور خواتین پر تشدد روکنے کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔اس قدر ذلت و رسوائی کے باوجودا تر پر دیش میں جرائم کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے،مسلسل بڑھتے جرائم کے سنگین واقعات پر ریاستی حکومت اور ریاستی پولیس اب بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔پہلے بدایوں پھر بہرائچ اور مراد آباد میںخواتین کی عصمت تار تارکرنے کےبعد درخت سے لٹکا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار نے کی واردات نے ملک بھر میں سنسنی پھیلا دی ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اکھلیش حکومت میں خواتین کے لیے پولیس تھانے بھی محفوظ نہیں ہیں۔اس کی ایک مثال ہمیر پورکے ایک تھانے میں زیرحراست قیدی کی بیوی کی خود پولیس افسر اور ایک سپاہی نے عصمت دری کی۔ متاثرہ خاتون اپنے شوہر کو تھانے سے چھڑانے کے لیے پولیس والوں سے بات کرنے گئی تھی، لیکن وہاں موجودعصمت کے محافظوں نےہی اس کی عصمت لوٹ لی۔ اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی خاتون جن پولیس اہلکاروں سے مدد کی درخواست کرے، وہی اس کی آبرولوٹ لیں۔اس معاملے میں اعلیٰ حکام کی مداخلت کے بعد خواتین کی شکایت درج تو کر لی گئی ہے، لیکن تھانے میں اس کے ساتھ ہونے والی واردات یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ عام شہریوں کو پولیس پر کتنا بھروسہ کرنا چاہیے۔ اس سے ہٹ کر ایک سوال یہ بھی ہے کہ پولیس کی جس لاپروائی کی وجہ سے ریاست میں جرائم کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں اور حکومت کو اس پر کوئی جواب دیتے نہیںبن رہا ہے، اس کے خلاف کوئی عملی اقدامات کیوں نہیں ہو پا رہےہیں؟ریاستی انتظامیہ اس قدرکمزور کیوں ہے کہ پولیس کی لا پر وائی ،مجرمانہ حرکت میں تبدیل ہو رہی ہے؟سوال یہ بھی ہے کہ پولیس کے اس رویے کی وجہ سے متاثرین کو انصاف اور قصورواروں کو سزا دلانا کس طرح ممکن ہو پائے گا؟ کیوں کہ تھانے میں درج ایف آئی آرہی عام طور پر قانونی لڑائی اور عدالتی فیصلوں کی بنیاد بنتی ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کے معاملوں میں تھانوں کے اندر پولیس متاثرین کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتی ہے،اس کے اسی رویے کی وجہ سے عصمت دری جیسے خطر ناک جرائم میں سزا کی شرح ۲۵؍پچیس فیصد سےبھی کم ہے اور زیادہ تر ملز مین قانونی پہلوؤں کا فائدہ اٹھا کر چھوٹ جاتے ہیں۔ حالانکہ کسی بھی حساس حکومت یا انتظامیہ کو ملزمان کو سزا دلانے کے لئے فوری طور پر فعال ہونے اور متعلقہ محکموں کی خامیوں کو دور کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اورکوتاہی برتنے یا جرم میں ملوث افسران ، ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف لوگوں کو انصاف ملنےکی آس جاگے گی،بلکہ اس سے عوام کے درمیان بھی مثبت پیغام جائے گا،مگر ہندوستانی نظام حکومت میں یہ بیماری اب عام ہوتی جا رہی ہے کہ سرکاری سطح پر ہونے والی خامیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ہمارے لیڈران شرم و حیا کی سبھی حدوں کو پار کردیتے ہیں اور ایسےبےتکے بیان جاری کر دیتے ہیںجس سے شرپسند عناصر کا حوصلہ بلند ہوجاتا ہے اور وہ بے خوف و خطردوبارہ گناہ کے راستے پر چل پر تے ہیں۔حالیہ پارلیمانی انتخابات کےدوران سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادونے آبروریزی کے ملزمین کو سخت سزا دیے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے ایک ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان دیا جس پر خوب ہنگامہ ہوا اور اس کی سیاسی اور سماجی سطح پر مذمت کی گئی۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ صوبے میں بڑھتے جرائم کے واقعات کے پیچھے کہیں نہ کہیں ان کا یہ نرم رویہ ہی خواتین کے لیے مصیبت بن رہا ہے اور پولیس بدمعاشوں پر قابو پانے میں ناکام ہے۔اور اب پانی سر سے اتنا اوپر ہو چکا ہے کہ اتر پردیش کی تقسیم کی بات زور شور سے اٹھنے لگی ہے۔
ریاست میں بگڑتےحالات کے پیش نظر مرکزی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ بڑی ریاست ہونےکی وجہ سے حکومت کو صحیح طریقے سے کام کرنا مشکل ہورہا ہے۔ان کےخیال میں اچھے نظام حکومت کے لیے ریا ست کی تقسیم نا گزیر ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وزارت اس طرح کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے،مگر مسئلہ یہ ہے کہ کیا ریاست کی تقسیم ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔کیا چھوٹی ریاستوں میں جرائم کے واقعات نہیں پیش آتے ہیں اور پھر اس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ صوبے کی تقسیم کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے اور لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پوری طر ح حل ہوئے جائے گا۔عورتوں کی عصمت پوری طرح محفوظ ہو گی اور عوام پر کوئی ظلم و زیادتی نہیں ہوگی۔فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوں گے اور کسی کا ناحق خون نہیں بہے گا۔ملک کے لیڈران کو کسی بھی صوبے کی تقسیم کے بارے میں غور وفکرکرنے سے قبل ان سوالوں کا جواب بھی دینا چاہئے ۔بصورت دیگر ان کی ریاستوں کو بانٹنے کی اس فکر کو محض سیاسی خیال کیا جائےگا۔(بصیرت فیچرسروس)
(مضمون نگار انقلاب دہلی کےسینئر سب ایڈیٹر ہیں
Comments
Post a Comment