فلسطینیوں پر صیہونی مظالم کے درد کی داستاں!

ہم ایک ایسے وقت میں ’عالمی یوم القدس ‘ کا اہتمام کرنے جا رہے ہیں جب ظالم اور سفاک یہودیوں نے غزہ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے،ارض مقدس معصوموں کے خون سے لہو لہان ہے،فلسطین پرمسلسل دوہفتوں سے جاری اسرائیلی فوجوں کے حملوں میں سیکڑوں بے گناہ افراد( جن میں خواتین اور ننھے منے بچے بھی شامل ہیں) شہید ہو چکے ہیں۔صیہونیوں کی اس بر بریت پر پوری دنیا ئے انسانیت انگشت بدنداں ہیں، مگر  اسسفاک قوم کے سر پر جوں تک نہیں رنگ رہی ہے۔
 12 جون۲۰۱۴؍ کیشب تین اسرائیلی نوجوان اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں واقع ایک یہودی بستی سے اغوا کئے گئے اور بعد میں اُن کی لاشیں ملیں۔بس اسی واقعے کو بہانہ بنا کر فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی کا اسرائیلی کھیل شروع ہوگیا اور تاحال پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ہماری بے بسی اور بےکسی کا عالم یہ ہےکہ ماہ مقدس میں ارض مقدس کے شہر غزہ کوقبرستان میں بنائے جانے کے صیہونی پلان پرمسلم حکمرانوں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، انہیں معصوم بچوں اور اپنا سب کچھ کھوچکیں عورتوں کی چیخ و پکار اور روتے بلکتے فلسطینی مسلمان بھائیوں کی سسکیاں بالکل نہیں سنائی دے رہی ہیں، دنیا بھر کے انسانیت نواز لوگ اسرائیلی مظالم کے خلاف سڑکوں پر اترکراحتجاج کر رہے ہیں، بے گناہ فلسطینیوں کی موت پر ان کا سینہ چاک ہورہا ہے،وہ اس کرب کو محسوس کر کے کراہ رہے ہیں اوربے چین ہیں، مگر مسلم حکمراں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔کچھ مسلم حکمرانوں نےصرف مذمت کے چند رسمی جملے ادا کرکے اپنے منہ کو سی لیا، جبکہ ان کی بزدلی اور خاموشی سے حوصلہ پاکر اسرائیلی فوجوں کی جارحیت اور سفاکیت نے ظلم و ستم کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔یہودیوں کی بے شرمی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ بد بخت قوم پہاڑی پر بیٹھ کر اسرائیل کے فضائی حملوں میں اپنے گھروں میں دفن کیے جارہے فلسطینیوں کی موت پر جشن مناتے ہیں۔
 ائے کاش! کہ مسلم حکمراں ان مٹھی بھر یہودیوں سے کچھ سبق حاصل کرتے اور انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی سکت رکھتے۔آخر کب تک تماشائی بنے رہیں گے،کیاکبھی ان کا ضمیرانہیں ملامت کرے گا اوریہ ہوش کے ناخن لیںگے؟یہ عہد حاضرکا سب سے اہم سوال ہے۔رمضان المبارک  میں نہتے فلسطینیوں پر پے در پے خطرناک حملوں کے ذریعہ یہودیوں نے ہماری غیرت کو للکارا ہے اور ملت اسلامیہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ یہی حات رہی تو:
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
جمعۃ الوداع کو ’عالمی یوم القدس‘یعنی قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے طور پر منایاجاتا ہے اور عالم اسلام سمیت پوری دنیا میں صیہونی حکومت کے مظالم کے خلاف لوگوں میں تحریک پیدا کرنے کیلئے پرامن احتجاج اور مظاہرے کیے جاتے ہیں۔موجودہ عہد میں یہ اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ امریکہ ،برطانیہ ہی نہیں بر صغیر ہند۔ پاک اوردوسرے بہت سے ممالک کو صیہونی وائرس اپنے شکنجے میں لے چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان متحدہوکر اس کا مقابلہ کریں اور شہید ہوچکے اپنے فلسطینی بھائیوں کو خراج عقیدت پیش کریں۔ اسلامی یکجہتی کا  ثبوت دیتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے میدان عمل میں آجائیں۔یوم القدس اس بات کا بہترین موقع ہے کہ ہم امت واحدہ کی صورت میں اپنے تمام تر فروعی اختلافات اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قبلۂ اوّل کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بن جائيں۔شاید ہم نہیں جانتے کہ یہودیوں کی قدیم ہی نہیں جدید نسلیں بھی فلسطینی مسلمانوں سے کس حد تک نفرت کرتی ہیں اس کا اندازہ  اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ  اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت میں شامل جماعت’ ہابیت ہا یہودی‘ کی ایک رکن  اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھتی ہیں۔
’’ہر دہشت گرد کے پیچھے بیسیوں ایسی عورتیں اور مرد ہیں جن کی مدد اور تائید کے بغیر وہ دہشت گرد نہیں بن سکتا۔ چنانچہ یہ سب کے سب لوگ مسلح جنگجو کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ اور جو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنا اس کا خون ان سب کی گردن پر ہے۔ ان میں وہ مائیں بھی شامل ہیں جو اپنے دہشت گرد بچوں کی لاشوں کو پھولوں اور بوسوں کے ساتھ جانبِ جہنم رخصت کرتی ہیں۔ انصاف یہی ہے کہ ان ماؤں کو بھی ان کے بیٹوں کے ساتھ روانہ کر دیا جائے اور ان کے گھر بھی مسمار کر دیے جائیں جہاں رہتے ہوئے وہ سانپ پیدا کرتی ہیں۔ بصورتِ دیگر یہ سنپولیے ہی پیدا کرتی رہیں گی‘‘۔
گذشتہ سوسالہ تاریخ بالعموم اور ۴۶ سالہ تاریخ بالخصوص اس بات پر شاہد ہے کہ مسجد اقصی بیت المقدس پر قبضے کا معاملہ پہلے عرب علاقوں میں یہودیوں کی ناجائز آبادکاری کی وجہ سے تھا اس کے بعد اسرائیل جیسی غاصب اور ناجائز ریاست کے قیام نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔آہستہ آہستہ یہ مکار اور شاطر یہودی پھیلتے جارہے ہیں اور فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرتے جا رہے ہیں۔یہ خوش ہیں اور ان کی بستیاں خوشحال  اور فلسطینی بستیاں سمٹتی اور ویران ہوتی جا رہی ہیں ،مگر دنیا صیہونیوں کی دہشت گردی پر اس لئے خاموش ہے کہ جس قسم کے خطرناک ہتھیاروں اور جنگی اسلحوں کا خزانہ اس کے پاس ہے اس کے سب محتاج ہیں۔اس لئےاپنی زباں بندی میں عافیت محسوس کر تے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو ہندوستان  کبھی فلسطینیوں کا بڑا حامی اور مددگار تھا جب سے امریکہ کے ساتھ کے تعلقات بڑھے ہیں ہندوستانی حکومت نے  امریکہ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اسرائیل کی ظالمانہ روش پر چپی سادھ لی ہے۔یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ اسرائیل کے قیام‘ ترویج‘ توسیع اور تحفظ میں سب بڑا اور اہم کردار امریکہ کا ہے۔ جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا وہ بھی عملی طور پر بیت المقدس کی آزادی یا اسرائیل کے قبضے کے خلاف کوئی قابل ذکر  کردار  نہیں ادا کر رہے ہیں۔ حالانکہ عرب ممالک کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس مسئلے کو جنم ہی نہ لینے دیتے اور اسرائیل کو پیدا ہونے اور صہیونی یہودیوں کو بیت المقدس پر قابض ہونے سے روک لیتے لیکن یہ بھی ایک تلخحقیقت ہے کہ اسرائیل کے ناجائز وجود کے اصل ذمہ دار بھی کہیں نہ کہیں یہ عرب ہیں۔ 
ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
 افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے‎ 
قبلہ اول بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کے ساتھ ساتھ مظلوم فلسطینی عوام پر آئےدن اسرائیلی تجاوز‘ دہشت گردی اور تشدد بھی ہماری نظروں کے سامنے  ہے۔ گذشتہ تیس سال سے اسرائیل تقریباََ روزانہ فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت اور تجاوز کا مرتکب ہوتا ہے ۔غزہ کا محاصرہ پوری دنیا میں ایک عظیم انسانی المیے کے طور پر سامنے آیا ہے۔پوری دنیا  سراپا احتجاج  ہے اس کے باوجودد اسرائیل کے فضٓئی اور زمینی حملے جاری ہیں۔
 اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بھر سے مسلمانبیت المقدس کی بازیابی‘ اسرائیل کے ناجائز وجود کے خاتمے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے متحد  ہوکر آواز بلند کریں۔ 
آخرمیں امریکی ماہر لسانیات ، فلسفی اور مؤرخ نوم چومسکی کے اس جملے پر اپنی بات ختم کرتا ہوں، جس میں انہوں نے  ایک فلسطینی کے درد کو کچھ یوں نقل کیا ہے۔
’’ تم نے میرا پانی لے لیا، زیتون جلا ڈالے، گھر مسمار کر دیا، روزگار چھین لیا، زمین چرا لی، باپ قید کر دیا، ماں مار ڈالی، میری دھرتی کو بموں سے کھود ڈالا، میرے راستے میں فاقے بچھا دیے، مجھے کہیں کا نہ رکھا اور اب یہ الزام بھی کہ میں نے تم سے پہلے راکٹ کیوں پھینک دیا‘‘۔

Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا