فرقہ پرستوں کے بڑھتے حوصلے

 فرقہ پرستوں کے بڑھتے حوصلے

’مودی جی کی ہے سرکار ،کوئی کیا کرےگا یار‘۔شدت پسند ہندوتنظیموںکے افرادمیں یہسوچ بہت تیزی سے فروغ پارہی ہے۔معروف صحافی کلدیپ نیر نے بھی اپنے ایک مضمون میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ’ کٹرپن میں یقین رکھنے والے افراد مزید شدت پسندانہ رخ اختیار کررہے ہیں اور انہیں مقبولیت مل رہی ہے،ورنہ امت شاہ کا عروج کوئی معنیٰ نہیں رکھتا‘۔
گزشتہ چنددنوںمیں ملک میںتین خبریں توجہ کا مرکز رہیں۔ ان خبروں کا تعلق کہیں نہ کہیں ملک کی سالمیت،لا اینڈ آڈر اورنقض امن سے ہے۔مرکز میں جب سے آرایس ایس کی سرپرستی میں بی جے پی کی سرکار بنی ہے اور گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ’سی ایم سے پی ایم‘ بنے ہیں اترپردیش سمیت پورے ملک کی جو حالت ہے اب وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔خاص طور پرجو لوگ اخبارات اور نیوز چینلوں کے عادی ہیں انکی ان حالات پر گہری نظر ہے۔انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ مہنگائی پر قابو پانے اور ہندوستان کے اچھے دن آنے کا دعویٰ کرنے والے بی جے پی کے تیس مار خاں مودی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی عوام کو مہنگائی کا ایسا جھٹکا دیا کہہر طرف مہنگائی بے قابو ہوکر سرپٹ دوڑ رہی ہے۔حالانکہ یہ ایسا غیر اہم موضوع نہیں ہے کہ جس پر توجہ نہیں دی جائے اور مہنگائی سے نجات دلانے کا ڈھنڈورہ پیٹنے والوں کو بخش دیا جائے، مگر اس وقت ہندوستان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ لا اینڈ آڈر کی بگڑتی صورتحال کا ہے۔فرقہ وارانہ تشدد کے بڑھتے واقعات پر قابو پانے کا ہے۔ملک کی اکثریت(ہندو) اور سب سے بڑی اقلیت(مسلمان)کے بیچ بڑھتی منافرت کا موضوع سب سے اہم ہے۔چونکہ  ایک منظم سازش کے تحت  ہندو اور مسلمانوںکے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف سلگائی جارہی نفرت کی اس چنگاری پر اگر بروقت پانی نہیں ڈالا گیا تو یہ ملک راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے تباہ برباد ہونے سے بچا نہیں سکتی۔
 ہم نے جن تین خبروں کا تذکرہ کیا ہے، دراصل انہیں حقائق پر مبنی ہیں جن پر غور و فکر کیے بغیرہندوستان میں  پرامن ماحول کا خواب دیکھنا صحرا میں پانی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔پہلی خبر کرناٹک کے شہر بھٹکل سے ہے جس کو ملک کی خفیہ ایجنسی’ آتنک واد کی نرسری‘بتاتی ہے۔یہاں یکم اگست کو منعقدہ ایک پروگرام میں انگریزی اور ہندی کے مشہور صحافی اجیت ساہی نے یہ دعویٰ کر کے سنسنی پھیلادی کہ ہندوستان میں دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ،ان تمام میں مرکزی ایجنسیوں کا بھی ہاتھ ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے انہوںکہاکہ مجھے ہندوستانی مسلمانوں پر تعجب ہورہا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ سال میں صرف ۲؍ بار بم دھماکے کرنے آتے ہیں اور پولیس کئی آئی ایس آئی ایجنٹوں اور مسلمانوں کو گرفتار کرلیتی ہے، لیکن دوسری طرف یہی پولیس جب جنگلوں میں نکسلیوں کو پکڑنے جاتی ہے تو نکسلی ایسے پلٹ کر حملہ کرتے ہیں کہ پولیس کے ہوش اڑ جاتے ہیںاور وہ پولیس کی پکڑ میں نہیںآتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ لڑائی صرف مسلمانوں کی نہیں ہے، بلکہ پورے ہندوستانی عوام کی لڑائی ہے ، یہ اصول کی لڑائی ہے جو نہ کسی ہندو کےخلاف ہے اور نہ پولیس کے ، نہ انٹلی جنس کے خلاف ہے اور نہ ہی بی جے پی یا ہندتووادی تنظیموں کے ۔ بلکہ یہ حق کی لڑائی ہے اور یہ لڑائی ہمیں لڑکر ، گھبرا کر ، پریشان ہوکر اور دفاعی پوزیشن اختیار کرکے نہیں لڑنی ہے۔ یہ لڑائی عدالت میں بھی نہیں لڑی جاسکتی بلکہ اس لڑائی کو لڑنے کو کیلئے ہم کو سڑکوں پر اترنا ہوگا ، ملک کو مضبوط اور مستحکم کرنے کیلئے مسلمانوں کو میدان میں آنے کی ضرورت ہے۔ میںپورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جب ہندوستان کے پانچ لاکھ مسلمان دہلی کے رام لیلا میدان میں جمع ہوجائیں گے تو ملک کے حالات بدلنے شروع ہوجائیں گے۔ اجیت ساہی نے جاتے جاتے ایک ایسا سوال کردیا،جو ملک کے تمام انصاف پسند لوگوں کو انتہائی سنجیدگی سے سوچنے اور اس کا حل ڈھونڈنے پر مجبور کرتا ہے۔ اگرکہیں بم پھٹتا ہے تو۵۰؍ لوگ مرتےہیں اور ۱۰؍ گرفتار ہوتے ہیں، مگر۵ یا۱۰ سالوں کے بعد وہ بے گناہ ثابت ہوتے ہیں۔ تو یہ صرف ان نوجوانوں پر ظلم نہیں ہے جو گرفتار ہوئے تھے، بلکہ پورے ہندوستان پر ظلم ہے ۔ ان لڑکوں کی رہائی پر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ا نصاف ہوا ہے تو یہ غلط ہے ، کیونکہ ان لڑکوں نےبم دھماکے نہیں کئے تو پھر کس نےکیا ؟۔ کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے دھماکے کئے۔ ہم اس ماسٹر مائنڈ کا پتہ لگائے بغیر نوجوانوں کی رہائی پر جشن منانے لگتے ہیں، ملک کے انصاف پسند لیڈروں اور دانشوروں کو اس مسئلے پر متحد ہوکر ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے کہ آخر یہ لڑکے بےگناہ ہیں تو ملک بھر میں ہوئے بم دھماکوں کا گناہگار کون ہے؟ اور اس قصے کو یہیں پر ختم نہیں کرنا چاہئے، بلکہ یہاں سے شروع کرنا ہی وقت کا تقاضہ ہے۔
 دوسری خبر اترپردیش سے ہے جہاں لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد محض ۱۰؍ ہفتوں میں ۶۰۰؍ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے،ان میں سے ۱۰؍ فیصد  ان ۱۲؍ اسمبلی حلقوں میں یا ان کے آس پاس ہوئے ہیں جہاں آئندہ چند مہینوں میں ضمنی الیکشن ہونے ہیں۔ اعداوشمار کے مطابق اس معاملے میں کوئی پارٹی پیچھے نہیں ہے۔ وہ چاہے بی جےپی ہو، سماجوادی پارٹی ہو یا پھر بی ایس پی۔ کوئی دونوں بڑے مذہبی گروپوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کو فرقہ وارانہ موضوع بنانے سے نہیں چوکتی۔ جن علاقوں میں دلت اور مسلمان مل جل کر رہتے ہیں وہاں اشتعال پھیلانے اور طرفین کو مشتعل کرنے کے بھی واضح ثبوت ملے ہیں۔ اس کی وجہ سے سماج ۲؍ حصوں میں تقسیم ہورہا ہے۔آخری خبر صوبہ بہار سے ہےجسے سیاست کی جنم بھومی کہا جاتا ہے۔خداکا شکر ہے کہ یہ ریاست ایک مدت سے فرقہ وارانہ فسادات سے محفوظ ہے۔ یہ بہار حکومت کی بڑی کامیابی ہے، یا اس میں عوام کا اہم کردار ہے ،یا بہتر قانو ن و انتظام میں  صوبے کی پولیس کا بہت بڑا ہاتھ ہے، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے، لیکنبہار کےضلع مظفر پور کے اورائی بلاک کے تحت واقع ایک کثیر مسلم آبادی والی بستی ’ہرپور بیشی‘ میں رمضان المبارک کے آخر عشرہ میں رونما ہونے والے ایک منفرد واقعہ نے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ اب بہار کی بھی حالت ٹھیک ٹھاک نہیں رہی۔ یہاں کے شر پسند بھی مرکز میں بی جے پی کی مودی حکومت سے حوصلہ افزا ہیں اور ریاست کے امن و سکون کو غارت کرنے پر آمادہ ہیں۔ساون کے مہینہ کے ’چار سموار‘اس علاقےکیلئے بڑی آفت سے کم نہیں تھے ،مگراس بستی کےمسلمانوں نے صبر و تحمل سے کام  کرکے اس نئی مصیبت کو جھیل لیا۔ اورائی بلاک کے ہندو مسلمان  کی تاریخ اس اعتبار سے بڑی مثالی رہی ہے کہ یہاں کا ماحول کبھی بھی ذات پات کی بنیاد پرگندہ نہیں ہوا، لیکن گزشتہ دنوںچند شرپسندوں کے اشارے پر علاقے کے ہندوؤں نے بھائی چارے کی اس روایت کو پامال کرتے ہوئے ایک ایسی نئی روایت کی بنیاد ڈال دی ہے جو کبھی بھی جوالا مکھی بن کر پھٹ سکتی ہے۔سموار کی شب ایک ندی سے پانی لے کر مندر پر چڑھانے کے معمولی واقعے کواس طرح سے انجام دیا گیا جیسے  کوئی بہت بڑا معرکہ سرکرنا ہو۔ رات کے مہیب سناٹوں میںدوڈھائی ہزار کے قریب ہندوں کا ایک جتھہ  ہتھیاروں سے لیس ہو کر ڈی جے بجاتے ہوئے اشتعال انگیز نعروں کےساتھ اس پوتر کام کی تکمیلکیلئے اس بستی سے گزرتا ہے جو کثیر مسلم آبادی پر مشتمل ہے،جہاں نہ کوئی مندر ہے نہ کوئی مذہبی جگہ۔  اس لئے اس واقعے کو صرف ماحول کو خراب کرنے کی نیت سے اٹھایا گیا قدم قراردیا جاسکتا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ منتخب جگہ تک جانے کیلئے اور کئی آسان راستے تھے، لیکن شرپسندوں نے  بیچ گاؤں سے گزرنے والی سڑک کا انتخاب پر ی پلان کیا ۔  اور مودی جی کی ہے سرکار کوئی کیا کرےگا یار!جیسے سلوگن کے ساتھ مسلسل چار یاترا اس خالص مسلمان بستی سے کیا۔اس دوران پوری بستی کے مرد و خواتین کی خوف و دہشت سے جو حالت رہی ہوگی اس کا اندازہ رات کی تاریکی میں ہزاروں کی تعداد میں شریک اس مشتعل ہجوم سے لگایا جاسکتا ہے جو دل میںکچھ کر گزنے کا ارادہ رکھا ہو۔بہار حکومت اور ضلع انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لا پروائی پر اورائی تھانے کی پولیس،پنچایت کے مکھیا اور سرپنچ سے باز پرس کرے۔اس سے پہلے کہ شرپسند عناصر بہار  کو گجرات اور اتر پردیش  بنا نے کی سازش میں کامیاب ہوجائیں، اس کھیل کے ماسٹر مائند کا پتہ لگا  کر اس کے خلاف سخت کارروائی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Blanket distribution 2019--2020

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا

ہندوستان کاہر شہر بن گیا’شاہین باغ‘