کہ خوشی سے مر نہ جاتے،اگر اعتبار ہوتا!

Shahabuddin Saqib Qasmiڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
اپنی زندگی میں شایدپہلی بار وزیر اعظم نریندر مودی نے علی الاعلان ملک کے مسلمانوں کی حب الوطنی پر کھل کراپنے خیالات کا اظہارکیا اور بہت ہی نپے تلے الفاظ اورانتہائی مستحکم اندازمیں انہوں نے میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا :
’’بھارتی مسلمان بھارت کے لیے جئیں گے، بھارت کے لیے مریں گے، وہ بھارت کے لیے کبھی برا نہیں چاہیں گے، اگر کوئی بھی یہ سوچتا ہے کہ بھارتی مسلمان اس کے اشاروں پر ناچیں گے تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔‘‘
بس پھر کیا تھا ان کے اس بیان پر ملک بھرمیں جیسے بھونچال آگیا ہو،جیسے انہوں نے کوئی عجوبہ یا انہونی بات کہہ دی ہو،یا گویامسلمانوں کو ہندوستان سے وفاداری کی سند کی اشد ضرورت تھی اور وزیر اعظم نے وہ سرٹیفکٹ بی جے پی کی حکومت بنتے ہی عنایت کردی۔جبکہ اس تعلق سے ایماندای کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے کافی دیر سے آنے والا یہ دوراندیشانہ بیان سیاسی پارٹیوں کو ہضم نہیں ہو پا رہا ہے تومسلمان ان کے خیالات سےکس حد تک مطمئن اور کتنے خوش ہوںگے یہ کہنا مشکل ہے۔البتہ آر ایس ایس کے نظریات سے ہم آہنگ بھگوا جماعتیںوزیر اعظم کے بیان کو سنجیدگی لینےکےساتھ ساتھ مسلمانوں کو یہ مشورہ بھی دے رہی ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک سے وفاداری پر بیان دے کر ان پر احسان عظیم کیا ہے، اس لئے اب مسلمانوں کو بھی مودی جی کا خیال رکھنا چاہئے۔ شیوسینا کے ترجمان’سامنا‘نے اسی بات پر اداریہ تحریرکیا،جس میں یہ وضاحت بھی تھی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی مودی کی تعریف کو ہندوتو کے تئیں ان کی محبت میں کمی کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے،نیز مودی کا ہندوتو صرف اس لئے کم نہیںہو جاتاکہ انہوں نے مسلمانوں کو محب وطن قرار دیا ہے‘‘۔ 
کچھ لوگ وزیر اعظم کے بیان کو ان کے دورۂ امریکہ سےجوڑ کر بھی دیکھ رہے ہیں،جہاںجانے کے لیے وہ ایک طویل عرصہ سے جدو جہدکرتے رہے ہیں،مگر گجرات میںہوئے۲۰۰۲ء کے مسلم کش فسادات کی وجہ سے امریکہ نے اب تک انہیں ویزا نہیںدیاتھا ، جس کی وجہ سےسیاسی پارٹیاںانہیں مسلسل گھیرتی رہی ہیںاب ان کے منھ پر تالا لگ جائے گا ۔اسی طرح کچھ لوگ ملک کی کئی ریاستوںمیں ہوئے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے حوالے سے اس بیان کو دیکھ رہےہیں، جہاں مسلم ووٹوںکی وجہ سے اس پر برے دن آئے۔
حالیہ لوک سبھا انتخابات میں جب ۶۰؍ فیصدووٹنگ ہوئی تو اس وقت یوپی کے ۱۷؍سے ۱۸؍فیصد مسلمانوں کے ووٹ کا زیادہ اثر نہیں پڑا،مگرضمنی انتخابات میں جب ۳۵؍سے ۴۰؍فیصد ووٹنگ ہوئی تو انہی مسلم ووٹوںنے بی جے پی کودھول چٹادی۔ اب اکتوبر میں مہاراشٹر اور ہریانہ میںاسمبلی انتخابات ہونے جارہےہیں ، اس کے بعد جھار کھنڈ اورجموں وکشمیرمیں بھی اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ظاہرہے یہ انتخابات دوسری بڑی پارٹیوں کی بہ نسبت بی جے پی کے لیے زیادہ چیلنج بھرے اوراہم ہیں۔چونکہ لوک سبھا انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرنےکے بعد ضمنی انتخاب میں اوندھے منہ گرنا نہ صرف بی جے پی کے چوٹی کے لیڈروں کے لیے شرمندگی کا سبب ہے، بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے بھی ہزیمت کا باعث بن رہا ہے۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ان انتخابات میں مودی لہر کی ہوا پوری طرح نکل گئی ،اوراگر یہی صورت حال برقرار رہی توآنے والے اسمبلی انتخابات میں انہیں مزید شکست سے دوچارہوناپڑسکتا ہے۔اس لیے تجزیہ نگاروزیر اعظم کےاس بیان کو ملک کی سیاست کےنشیب وفرازسے جوڑ کردیکھ رہے ہیں۔اوریہی زیادہ سچ لگتا ہے،اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ریاست میں مسلم رائے دہندگان کے بغیر بی جے پی کی نیا پار نہیں لگ سکتی ہے۔خاص طور پرمہاراشٹرا اور جموں وکشمیر جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد خاصی ہے۔مہاراشٹر کے۱۹؍اضلاع میں مسلم آبادی۱۰؍ فیصد سے زیادہ ہے، ممبئی اور اطراف کے شہری علاقوں میں تو بالترتیب۱۷؍ اور۲۲؍ فیصد مسلم آباد ہیں اورنگ آباد، آکو لہ اور مالیگاؤں میں بھی مسلم آبادی۱۵؍ فیصد سے زیادہ ہے۔اسی لئےمہاراشٹر میں پارلیمانی انتخابات کی طرح آرایس ایس اندریش کمار کی قیادت میں باضابطہ طور پر سرگرم ہوگئی ہے اور اسمبلی کے چناؤ میں بی جے پی کو بڑی کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے مسلمانوں پر ڈوڑے ڈالنے کی حکمت علمی تیار کرلی گئی ہے۔اس سے قبل اتر پردیش کے ۲۰۱۲ء اسمبلی انتخابات میں آرایس ایس نے ’ راشٹریہ مسلم منچ‘ کے توسط سے اسی طرح کی مہم چلائی تھی مگرسنگھ کو کوئی خاص کامیابی ہاتھ نہیں لگی ،اب دیکھنا یہ ہے کہ مہاراشٹر میں اس کا داؤ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔سنگھ کے کارکنان مہاراشٹر کےمسلمانوں کے درمیان اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کیلئے سب سے پہلے مسلمانوں کے دلو ں میں بیٹھی نفرت کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ان کہنا ہے کہ زیادہ ترمسلمان بابری مسجد کی شہادت سے آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں،اس لئےانہیں یہ کہہ کر سمجھانا پڑتا ہے کہ کسی کو برا کہنے سے پہلے کم از کم ایک بار اس کی بات کو دھیان سےسن لیں،اگر پسند آئے تو ٹھیک ورنہ کوئی بات نہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی کا بیان اس لیے بھی اہمیت کاحامل ہے کہ بی جے پی کےچوٹی کے رہنماایک طرف جہاں کھل کر مسلمانوں کے خلاف زہراگل رہےہیں ،وہیں وزیراعظم مسلمانوں کو سچا دیش بھکت قرار دے رہے ہیں۔ایسے میں سچ کون بول رہا ہے اس کا پتہ لگائے بغیرکسی طرح کی خو ش فہمی پالنا دیوانے کےخواب کی طرح ہے۔
کانگریس پارٹی نےچٹکی لیتے ہوئےکہا کہ وزیر اعظم کوپہلے اپنی پارٹی کےیوگی آدتیہ ناتھ ، امت شاہ،گری راج سنگھ، ساکھشی مہاراج اور مدھیہ پردیش کی اوشاٹھاکرجیسے لیڈروںکوسمجھاناچاہئے،جن کی زبان درازی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اوروہ مختلف بہانوں سے بی جے پی کے اقتدارمیں آنے کے بعد سے ہی مسلمانوں پر حملہ آورہیں۔ چنانچہ اگر وزیر اعظم اپنے قول میںواقعی سنجیدہ ہیں توپہلے انہیں مسلم مخالف لیڈروں کی اپنی اس ’بٹالین‘ کی زبانوں پرلگام لگانی ہوگی۔چونکہ ابھی تک وزیراعظم بی جے پی کےان شعلہ بیان لیڈروںکی زہر افشانی پرچپی سادھےہوئے ہیں اور اس تعلق سےانہوںنے ایک لفظ بھی نہیںبولا ہے،جبکہ عام آدمی پارٹی کےسربراہ اروند کیجروال اور دوسرے رہنما مودی کی خاموشی پرمسلسل سوال اٹھارہےہیں۔ ہندوستان کے مسلمان جو آزادی کے بعد سے مسلسل اپنےوجود کی لڑائی لڑرہے ہیں،ہر سیاست داں ملک سے وفاداری کا سرٹیفکٹ اسے تھماکراستعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔انہیںپوری آزادی اور سکون کے ساتھ جینے دیا جائےخارجی مسلم مخالف اور وطن مخالف طاقتوں کےنرغے میںآکر دہشت گردانہ سرگرمیوںکی آڑ میں ہندوستانی مسلمانوںکوہراساں اورمسلم نوجوانوں کی جوگرفتاریاں ہورہی ہیںاس پرقد غن لگاناانتہائی ضروری ہے۔کانگریس کی قیادت والی یوپی اے حکومت نے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کو لے کر مسلمانوں کے مطالبات پر کبھی سنجیدگی سے غور کرنا ضروری نہیں سمجھا جس کا نتیجہ ہے کہ آج بھی سیکڑوں مسلمان دہشت گردی جیسے سنگین الزامات کے تحت جیلوں میں بند ہیں اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں،ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ انصاف کیا جائے ۔اسے دوسرے درجہ کا شہری نہ سمجھا جائے جیسا کہ ابھی تک ہوتا آرہا ہے۔ اگر ایسا ہواتویہ ملک واقعی جنت نشاں بن جائے گا۔(بصیرت فیچرس)
(مضمون نگار انقلاب دہلی میں سب ایڈیٹر ہیں۔)

Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا