تیری عظمتوں سے ہوں بے خبر

کسی بھی طالب علم کے روشن مستقبل کا راستہ اس کے اساتذہ ہی ہموار کرتے ہیں۔بچے کی کردار سازی میں اہم کردار والدین کا ہوتاہے ، اس کے بعد جو شخصیت سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے وہ استاد کی ہے۔ استاد صرف تعلیم ہی نہیں دیتا بلکہ وہ تربیت بھی کرتا ہے، اس کے علاوہ معاشروں کے عروج و زوال میں بھی اساتذہ کا کردار ناقابل فراموش ہوتا ہے،اس لئےکسی بھی باعظمت شخصیت کی زندگی میں اگر کسی ذات کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے تو وہ بلاشبہ ’معلم‘ کی ذات گرامی ہے،یہی وہ منفرد خوبیہےجس کی وجہ سے ہر عہد اور ہر معاشرے میںاساتذہ کرام کو بے انتہا قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا  اورچاہاگیا ہے،چاہے وہ کسی بھیعلوم و فنون کے ماہر ہوں، ان سے علم کی پیاس بجھانے والوں نے انہیںاپنے پلکوں پر بٹھایا ہے اور بے پناہ شرف وعزت سے نوازا۔یہ صرف اور صرف علم کی عظمت و برکت ہے کہ زندگی میں اور بعد مرگ اساتذکرام کی عظمت کو سلام پیش کیا جاتا رہا ہے۔حالانکہ سیکھنے اور سکھانے کا دائرہ لا محدود ہے،وہاں بھی وہی محنت اور لگن کارفرما ہوتی ہے، لیکن اپنے گرو کاادب و احترام اس درجہ نہیں ہوتا۔
پانچ ستمبر کو یوم اساتذہ کے موقع پراس امر کو یقینی بنایا جانا بے حد ضروری ہے کہ استاد اور شاگر کے مابین جس رشتہ کی مثال دی جاتی رہی ہے اس کی بقا کیلئے موثر اور مخلصانہ کوششیں کی جائیں۔صرف تعلیمی شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والے چند اساتذہ کو انعام و اکرام  سے نوازکران کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا،بلکہ اس موقع پر ان اسباب کا بھی پتا لگانا اور اس پر سنجیدہ غور وخوض کرنا ناگزیر ہے جن کی وجہ سے طلبہ اور تعلیم کے مراکز میں اخلاقی بے راہ روی بے تہاشہ بڑھتی جا رہی ہے،تنبیہ کرنے والے اساتذہ کے دلوں میں بھیانک انجام کاخوف ہرآن موجود رہتا ہے اورطالب علموں کے دلوں میںاساتذہ کی جو عظمتیں ہواکرتی تھیں،اس میں تیزی سے گراوٹ آتی جا رہی ہے۔اس تعلق سے  اسکولوں ، کالجوں اور تعلیمی مراکز کی حالت تو اور خراب ہے ،یہاںکے ماحول سے یہ صفت  تقریبااب مفقود ہوگئی ہے۔معلم اور متعلم کے درمیان ادب و احترام اور شفقت و محبت کی جھلک عصری اداروں میں شاید ہی دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں،بس ہر کوئی اپنی اپنی ذمہ داری کونبھا رہا ہے،طالب علم کلاس روم میں پڑھ کر اور ٹیچر پڑھاکر اپنے اپنے فرائض سے چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ دینی ادارے کی حالت قدر بہتر ہے،یہاںچٹائی اور بوریے پر بیٹھ کر پڑھنے اور پڑھانے والوں کے دلوں میں ادب و احترام کا وہ جذبہ اب بھی موجود ہے جو انہیں اپنے اسلاف سے ملا ہے۔
عربی کا ایک مقولہ ہے ”العلم کلہ ادب“ کہ علم سارا کا سارا ادب ہے۔جو بھی اپنے وقت کا امام‘ مفسر‘ محدث،محقق،ادیب و دانشور اورمصنف بنا تو وہ اساتذہ ٴ کرام کے ادب واحترام کی وجہ سے بنا۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو معاشرے اساتذہ کو عزت و احترام دیتے ہیں وہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں اور جن معاشروں میںاستاد کا احترام نہیں ہوتاان کا حال ویسا ہی ہوتا ہے جس صورت حال سے آج ہم گزر رہے ہیں ۔خلیفۃ المسلمین سیدناحضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
”  جس نے مجھے ایک حرف پڑھایا میں اس کا غلام ہوں، چاہے تو وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے‘‘
مدارس کاا نظام تعلیم اگرچہ بے شمار خوبیوں اور صفات کا حامل ہے‘ لیکن دور حاضر میں ان مدارس سے فیض یاب لوگوں کے ساتھ جو امید کی کرنیں وابستہ ہیں اور ان سے مفید نتائج کی جو توقع دل میں جائے گیر ہے وہ شاید کار آمد ثابت نہیں ہو رہی اور بعض اوقات مذہبی مراکز میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جن سےر لوگوں کا سر شرم وندامت کی وجہ سے جھکنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ تاہم  دینی اداروں کے ماحول میں ابھی اتنی ناقدری نہیں ہے جتنی  کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباء  میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ان اداروں کے طلبہ کی نظر میں اساتذہ کی قدر ایک ملازم کی سی ہوکر رہ گئی ہے جبکہ اساتذہ ٴ کرام کا ادب واحترام ہی ایک طالب علم کو کامیاب انسان اور امت کا پیشوا وراہنما بنا سکتا ہے۔
خود ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن جن کی پیدائش کے دن(یعنی پانچ ستمبر) کو’یوم اساتذہ ‘کے طورمنایا جاتا ہے کا قول ہے کہ :
’’ پریم (حب) اور دھرم (راست بازی) کےذریعے تمام انسان ایک ہی روحانی منزل تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔‘
پانچ ستمبر کا دن ہندوستان کے لئے اسی وجہ سے خاص ہےکہ ا س  دن اساتذہ ان کی خدمات کے سبب انہیں اعزاز سےنوازا جاتا ہے۔ساتھ ہی یہ پیغام  بھی دیاجاتا ہے کہ ملک کی تعمیر میں ہمارے اساتذہ کا کردار کتنا اہم ہے،اساتذہ ہی نئی نسل کو زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کراتے ہیں،انہیں مشکلات سے نمٹنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں ، آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ، اساتذہ کا کام صرف اسکول یا کالج میں پڑھانا نہیں ہوتا بلکہ جب آپ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں توانگلی پکڑ کر عملی زندگی کے نشیب و فراز میں لڑکھڑانے سے بچانے والا بھی استاد ہوتا ہے۔
غرض جس طالب علم نے بھی علم وعمل کی بلند وبالا چوٹیوں پر اپنا نشیمن قائم کیا تو ایسا ادب واحترام کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ لہذا اگر کوئی طالب علم چاہتاہے کہ اس کے علم سے خلقِ خدا بہرہ مند ہو اور اس کا فیض چار دانگ عالم میں پھیلے تو اس کو ادب واحترام کا دامن لازم پکڑنا ہوگا۔ورنہ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال :
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہو جہاں ِ میں دو کفِ جو
یوم اساتذہ کے مناسبت سے اسکولوں اور کالجوں میں مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں مقررین علم و فن کی اہمیت پر روشنی ڈالتےہیں ،معلمین کی خدمات کو یادکرتے ہیں مگر اخلاق و آداب  جیسے اہم موضوع پربرائے نام گفتگو  ہوتی ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ معلم اور متعلم کے بیچ کم ہوتی محبتیں اور بڑھتی بے ادبی پر زیادہ سے زیادہ روشنی ڈالی جائے۔ساتھ ہی ان اساتذہ کو بھی ماہرین  شفقت و محبت کے گر سکھائیں جن  کیظالمانہ اور جاہلانہ حرکتوںسے نہ جانے کتنے بچوں کا کیریئر تباہ ہوجاتا ہے۔ایسے ٹیچر جو مار دھاڑ کو پسند کرتے ہیں اور جن کی وجہ سے کئی بار بچے ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور خودکشی جیسے اقدام پر مجبور ہوتے ہیںان کی  رہنما ئی کیلئے ورکشاپ وغیرہ کا پرگرام یوم اساتذہ کے موقع پرکیا جا سکتا ہے۔حالیہ دنوں میں ملک کی کئی ریاستوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں اسکول کے ٹیچروں کے ذریعہ تشدد کی باتیں سامنے آئیں ہیں اور ان پر کیسیز  ہوئے ہیں۔اس تعلق سے سب سے دردناک واقعہ ممبئی کے قریب تھانے میں پیش آیا جہاں واگڑ گركل انٹرنیشنل اسکول میں پڑھنے والے تین طالب علموں کی موت کے معاملے میں اسکول کے ہی دو ٹیچروں کو گرفتار کیا گیا۔تینوں طالب علموں کی لاش اسکول کے پیچھے موجود چھوٹی سی ندی سے برآمد کی گئی تھی، گھر والوں اور اسکول کے طالب علموں کے مطابق بچوں کی کافی پٹائی ہوئی تھی۔اس لئے درس وتدریس سے وابستہ لوگوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ آپ منصب کسی کی زندگی سنوارنا ،ان کی بہتر تربیت کرنا ہے نہ کہ طلبہ عزیز کی زندگی چھین لینا۔


Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا