مظفر نگرمیں’ کالج‘ کا قیام سرسید ؒ کے خوابوں کی سچی تعبیر !

Shahabuddin Saqib Qasmiڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی
یوم سرسید سے محض چند ایام قبل مظفرنگر کے فساد متاثرہ ایک گاؤں’جولا‘ میں سرسید کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔گزشتہ سال اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں ہوئے بدترین فرقہ وارانہ فسادات نے نہ صرف درجنوں زندگیاں چھین لی اور ہزاروں افراد کوبے گھر و بے سہارا کردیا،بلکہ ایسے طلبہ و طالبات کی تعداد بھی ہزاروں میں ہےجو تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے پلک جھپکتے محروم کردیے گئے۔اس دوران جب گاؤں کے گاؤں کو شرپسندوں نے نذرِ آتش کرکے تباہ و برباد کردیا، اوران گاؤوں کے باشندے اپنی بیوی بچوں اور بچے کھچے اثاثوں کے ساتھ دوسرے محفوظ علاقوں میں ہجرت کرگئے ،ان لوگوں نے مختلف بے آب و گیاہ میدانوں اور جنگلوں میں پناہ لی،مگر ان کے بچے اور بچیاں جو کسی نہ کسی اسکول اور کالج میں زیر تعلیم تھے اچانک ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔یہ ان پر ستم ظریفی کی دوہری مار تھی۔ اس فسادنے نہ صرف شہر اور ضلع مظفرنگر کواپنی زد میں لے لیا،بلکہ مظفر نگر سے متصل اضلاع اور مسلمانوں کی بڑی آبادی کوبھی اس آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔شرپسندوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے کہ قوم مسلم تعلیمی اور اقتصادی طور پربہت پیچھے چلی جائے ،ان کو بڑی حد تک مظفر نگر میں اپنے سنگھی منصوبے کوعملی جامہ پہونچانے کا موقع مل گیا،چونکہ حالات شرپسندوں کیلئے بہت پہلے سے ہی سازگار کر دیے گئے تھے۔اس لئے انہیں یہاں بھر پور کامیابی ملی اور وہ مسلمانوں کا جتنا جانی و مالی نقصان کرسکتے تھے دل کھول کرکیا،افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ملزمین آج بھی سر اٹھا کر چلتے ہیں اورمظلومین دربدر بھٹک رہے ہیں۔ 
جب حالات میں کچھ بہتری آئی تو ہمدردان قوم و ملت جو ان کی مدد اور بازآباد کاری کیلئے جدو جہد کر رہے تھے،حکمراں اور مقامی انتظامیہ سے بر سر پیکار ہو کر ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کر رہے تھے،ساتھ ہی ان کو پناہ گزیں کیمپوں میں رہ رہے لوگوں کے بچےاور بچیوں کی تعلیم کی فکر بھی دامن گیر ہوئی ئی۔بعض تنظیموں نے وقتی طور پر ان کیلئے تعلیم کا انتظام کیا بھی مگر یہ سب ناکافی تھے۔ظاہر ہے ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر تعلیمی مراکز کے قیام کی ضرورت ہے تاکہ فساد متاثرین کی زندگی کو دوبارہ پٹری پر لایا جاسکے اور یہ کام اتنا آسان نہیں ہے،مگر اچھی بات یہ ہے کہ لوگ اس طرف توجہ دے رہے ہیں ایسے میں آہستہ آہستہ ہی اس اہم ضرورت کی تکمیل ممکن ہو سکے گی۔ان حالات میں’سرسید کالج‘ کا قیام واقعی سرسید احمد خان ؒ کے خوابوں کی سچی تعبیر ہے۔اور اس تعبیر کو عملی شکل دینے والے علی گڑھ مسلم یونیور سٹی علیگڑھ کے وائس چانسلر عالیجناب ضمیر الدین شاہ بانی یونیور سٹی کے سچے جانشیں ہیں جنہوں نے سرسید علیہ رحمہ کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک ایسے علاقے میں علم کی شمع روشن کرنے کا ارادہ کیا جوفساد کے بعد سے تاریکی اور اندھیروں میںڈوبا ہوا ہے۔جہاں سیکڑوں افراد آج بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ خیموں کی بستیوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔محترم شیخ الجامعہ اور علاقے کی ان سرکردہ شخصیات کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے جن کی انتھک کوششوں کی بدولت کالج کے قیام کی راہ ہموار ہو ئی۔اس موقع پر منعقدہ تقریب میں ضمیر الدین شاہ نےجن زریں خیالات کا اظہار کیا وہ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ 
’’ اس علاقے میں فرقہ وارانہ فساد کے بعد یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کیوں نہ اقلیتی فرقہ کے بچوں کے لیے یہاں ایک معیاری کالج قائم کردیا جائے ،تاکہ نسل نو علم کے نور سے منور ہوسکے۔انہوں نے کہا ہماری قوم نے خواتین کی تعلیم کے تعلق سے حد درجہ غفلت اختیار کررکھی ہے جس کےمنفی نتائج مرتب ہورہے ہیں۔لڑکیاں تعلیم یافتہ ہوں گی تو کئی نسل تعلیم یافتہ ہوںگی اور چند دہائیوں میں ہماری قسمت بدل جائے گی۔‘‘
شیخ الجامعہ کے یہ چند جملےانتہائی قیمتی ہیں جن پر غورو فکر کی ہر صاحب خیر کو ضرورت ہے۔چونکہ سرسید علیہ الرحمہ کے دل میں اپنی قو م او رملک کے لئے جو درداورجذبہ صادق تھا اس جذبہ سے کام کرنے کی آج بھی ضرورت ہے۔یہ سرسید احمد خان کانیک جذبہ ہی ہےکہ علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کی بنیاد نہایت ہی مضبوط اور مستحکم ہے اور ہزار کوشش کے باوجود دشمنان قوم کی ہر سازش ناکام ہوجاتی ہے اور’شجر سید‘آج بھی اسی آن بان اور شان و شوکت کے ساتھ ملک و ملت پر سایہ فگن ہے اوراس کے دم سے ہر چہار جانب علم کی روشنی پھیل رہی ہے۔ 
کچھ لوگ سر سیدپر قوم پرست ہونے کا بھی الزام عائد کرتے ہیں،ان کی یہ بات صد فیصد درست ہے کہ ان کے دل میں اپنی قوم کیلئے ہمدردیاں تھیں، مگر ان کی فکر کا دائرہ وسیع تھا اور وہ ہر ہندوستانی کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے۔چونکہ انہوں نے جس ہندوستان کو دیکھا تھا وہ انگریزوں کا غلام ہندوستان تھا جسے سرسید جیسے قائد،رہنما اور مصلح کی ضرورت تھی۔ انگریزوں کے ذریعہ ڈھائے جارہے مظالم کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔اس لئے ان کے دل میں برادران وطن کےلئے بھی وہی جذبہ اور دوسرے مذاہب کے تئیں عزت و احترام بھی اسلام کی طرح جا گزیں تھا۔ وہ ہندو ۔ مسلم باہمی اتحاد کےلئے ہمیشہ کوشش کر تے ، دونوں مذاہب کےمابین قائم حسد و بغض اور عداوت کی دیوار کو منہدم کرنے کی ترغیب دیتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اس کے بغیر ملک و قوم کی کامیابی و ترقی نا ممکن ہے ۔
’’میں نے بار بار کہا ہے اور پھر کہہ رہا ہوں کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے ، جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندو مسلمان ہیں ، اگر دونوں باہم نفاق رکھیں تو وہ پیاری سی دلہن بھینگی ہو جائے گی اور اگر وہ ایک دوسرے کو بر باد کر دیں گے تو اندھی ہو جائے گی سو،ائے ہندوستان کے رہنے والے ہندو مسلمانوں اب تم کو اختیار ہے کہ تم اس کو بھینگا بنا دو یا اندھا بنا دو یا سلامت رکھو ‘‘
دنیا اس سے بخوبی واقف ہے کہ سرسید کی فکر و عمل کا دائرہ محدود نہیں تھا۔وہ مر د آہن ہزارہا مخالفتوں کے باوجوداپنے قدم کو آگے بڑھاتا گیا۔یہی وجہ ہے کہ اکبرالہ آبادی جیسا ناقد یہ کہنے پرمجبور ہوا کہ ’ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا‘ وہ کہتے ہیں :
یہ دنیا چاہے جو کچھ بھی کہے اکبر یہ کہتا ہے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
سرسید علیہ رحمہ جانتے تھے کہ کل یہی لوگ اپنے کئے پر کف افسوس ملیں گے ، مگر دنیا ان کے کار ناموں پر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو گی ، ان کے پیش نظر قوم کا درخشاں مستقبل تھا ، وہ دور اندیش اور مدبر تھے ، اس لئے ہمیشہ بہت دور کی سوچتے تھے ، جب جس چیز کی ضرورت پیش آئی ، اسکو بحسن و خوبی انجام دیا ۔یہ ان کے بےپناہ خلوص اور محبتوں کا ہی ثمرہ ہے کہ ان سے عقیدت رکھنے والے انہیں ہرسال ۱۷؍اکتوبرکو ان کے یوم پیدائش پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کی بےلوث خدمات کا دل سے اعتراف و اقرار کرتے ہوئے اس خاص موقع پر ان کے نقش قدم پر چلنے کا عہد وپیمان کرتے ہیں اورمحسن قوم و ملت کیلئے دعائیں کرتے ہیں۔(بصیرت فیچرس)
(مضمون نگار انقلاب دہلی میں سب ایڈیٹر ہیں۔)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in

Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا