بہارمیں ہندو مسلم پولرائزیشن کیلئےفرقہ پرستوں کی جد جہد

’’کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں چاہتی کہ’ انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل‘ پاس ہو اور نیا قانون بنے،ہندوستانی سیاست دانوں میں سیاسی قوت ارادی کی سخت کمی ہے، کیوں کہ اس سےفائدہ ہے سیاسی پارٹیوں کو، فائدہ ہے ان کے رہنماؤں کو۔ افسوس کہ جمہوریت میں آپ فسادات کرتے ہیں اور ووٹ ملتا ہے‘‘
 حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والی معروف وکیل ورندا گروور نےمذکورہ خیالات کا اظہار’کون ڈرتا ہے فرقہ وارانہ تشدد بل سے؟ کے عنوان سے ۸؍اگست ۲۰۱۴ء میں شائع بی بی سی ہندی کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کیا تھا ۔اس تناظر میںدہلی سے ممبئی اور یوپی سے بہار تک اورملک کے دوسرے حصوں کے موجودہ حالات پر غور کریں تو یہ بات بہت اچھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اب فرقہ وارانہ فسادات کی فصلیںباضابطہ اگائی جارہی ہیںاورکشت خون کا ماحول گر م کرکےہندوستان کے طول و عرض میں سیاست کی بساط بچھائی جارہی ہے۔
اتر پردیش کے ساتھ دہلی اور بہار کا ذکر اس لئے کیا کہ ان دونوں ریاستوں میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات یکے بعد دیگرے رونما ہوتے جا رہے ہیں۔۲۶؍مئی ۲۰۱۴ کو جب مرکزمیںمودی سرکاربنی ،شرپسندوں کوجیسے ایک طرح سے کھلی چھوٹ مل گئی ہو،بلا خوف خطر ہر طرف دنداناتے پھر رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نیشنل اور انٹر نیشل میڈیا میں چھائے رہنے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہندو،مسلمان کے دلوں میں پیدا کی جارہی نفرت کی چنگاری کے خلا ف کوئی مستحکم بیان نہیں دیا ہےجس سے کہ ان عناصر کا حوصلہ پست ہوجو مودی حکومت میںگناہ کو گناہ نہیں سمجھتے ہیں ۔ بی جے پی حکومت کے آتے ہی ملک کے حالات نے جس طرح سے کروٹ بدلنا شروع کیا اوربھگوا جماعتیں جس مستعدی سرگرم ہونے لگیں کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی کو کہنا پڑا کہ مرکز میں مودی حکومت کے آنے کے بعد سےملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات میں اضافہ ہوا ہے۔
  فرقہ وارانہ کشیدگی کےمعاملے میں سب سےبری حالت بہار کی ہے،نومبر کے پہلے ہفتہ میں ’دی انڈین ایکسپریس‘ نےبہار میں بڑھتے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پر ایک جامع رپورٹ شائع کی تھی،جس میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں بی جے پی اور جے ڈی یو کی علیحدگی کے بعد سے فرقہ وارانہ واقعات میں بے  کافی اضافہ ہوا ہے اور جون 2013 کے بعد سے اب تک بہار میں 170  سے زائد ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن سے صوبے کہ امن وامان میں خلل پڑا ہے۔ ایک مہینے میں تشددکے 10 سے زیادہ واقعات سامنے آ رہے ہیں، جبکہ بی جے پی-جے ڈی یو اتحاد کی حکومت کےدوران یہ تعداد اوسطا 3-4 کی تھی۔
فرقہ وارانہ فسادات کے اس باڑھ میں سب سے خطرناک واقعہ اگست 2013 میں نوادہ ضلع میں پیش آیا تھاجہاں بجرنگ دل کے ایک کارکن سمیت تین افراد لقمہ اجل بن گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نتیش کمار کی قیادت میں این ڈی اے حکومت کے دور میں فرقہ وارانہ تشدد کی کوئی بڑی واردات نہیں ہوئی تھی،جبکہ وزیر اعلی جتن رام مانجھی کے دور اقتدار میں 38  سے زائد ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں۔اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد صرف ضلع سیتامڑھی کے تقریبا تین گاؤں مہسول،رائے پور اور بوکھرا کے پرامن حالات کو بگاڑنےکی منظم کوشش کی گئی مگر ان جگہوں پر پولیس اور انتظامیہ کی مستعدی کے سبب کوئی بڑی واردات انجام دینے میںناکام رہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی سے الگ ہونے کے بعد جے ڈی یو حکومت ریاست میں ایسے واقعات کو روکنے میں ناکام ہے یا بی جے پی اس طرح کے واقعات کو ہوادے کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہی ہے۔سیدھے سادھے لوگوں کے ذہن و دماغ میں یہ زہر گھولا جا رہا ہےکہ بھارت میں اب جاکر مودی سرکار میں ہندوؤں کو اصلی آزادی ملی ہے اس کا م کیلئے گاؤں گاؤں جاگر ن کیا جا رہا ہے۔ اس سچائی کو جاننے سے قبل دہلی میں مقیم بہار کے ضلع اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی رجنیش کا وہ بلاگ کا فی اہم ہے جو ۱۱نومبر کو’ نوبھارت ٹائمز‘ میں’دنگے کے بعد دنگائیوں کو مودی سے امیدیں‘ کے عنوان سے چھپا ہے۔
انہوں نے اورنگ آباد کی مشہور بستی داؤد نگر میں پیش آنے والی کشیدگی کےاصل محرکات کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’میرے گاؤں سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا شہر’داؤدنگر‘ ہے، گاؤں پہنچتے ہی سنا کہ داؤدنگر میں فساد ہو گیا ہے تومجھ سے رہا نہیں گیا اور میں جائزہ لینے کیلئے موٹر سائیکل سے وہاں پہنچ گیا۔ گاؤںکےہندووں نے مجھے بتایا کہ مسلمانوں نے ہنومان جی کی اس مورتی کے ہاتھ اکھاڑ دیئے ہیں جوشہر کی سب سے بڑی مورتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس موقع پر گاؤں کےلوگ یہ بات بھی فخر سے  بیان کرتے نظر آئے کہ ’بس 10 سال مودیا کے رہ جائے سب ٹھیک ہوجات‘
 اس کے بعد رجنیش داؤدنگر مارکیٹ میں مسلمانوں کی بستیوں میںگئے اور لوگوں سے بات چیت کی تو انہوں نےجو کچھ بیان وہ آنکھ کھولنے لئے کافی ہے۔
میں ایک مسلم نوجوان کے ساتھ’ ہنومان کی اس مورتی کے پاس گیا جو اس فساد کا سبب بنی تھی۔ سر دیکھئے! یہی مورتی ہے۔میں نے دیکھا کہ مورتی میں تین جگہ معمولی خراش تھے اور مورتی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ 4 نوبر کی شب ہوئی تھی۔ صبح ہوتے ہی شہر میں سنسنی پھیل گئی، سڑک پر ہزاروں کی تعداد میں ہندوؤں کی بھیڑجمع ہو گئی اورمسلمانوں پرسنگ باری کی جانےلگی، ہجوم کا پہلا نشانہ تعزیہ بنا جسےشرپسندوں نے توڑ دیا،دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر فرقہ وارانہ کشیدگی کی زد میں آ گیا جس میں کئی مسلم نوجوان زخمی ہوگئے۔
یہ فساد کیوں ہو ا؟اس کے اصل محرک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رجنیش نے مقامی لوگوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ در اصل داؤدنگر میں پسماندہ ذات اور دلتوں کی اکثریت ہے اور یہ اب تک لالو اور سی پی آئی (ایم ایل) کے ووٹررہے ہیں جس میں بی جے پی سیندھ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔بی جے پی کے مقامی صدر اشونی تیواری کی شہ پرکچھ ہندو تنظیمیں مسلسل اس قسم کی حرکتوں کے توسط سے ان کے دلوں میں فرقہ واریت کا زہر گھول کر ووٹ کی سیاست پر آمادہ ہیں۔اور ان کا سب سے ایک ہی مقصدہے کہ داؤدنگر مارکیٹ جہاںبڑے پیمانے پر مسلمان بزنس کرتے ہیں اور اس مارکیٹ پر ان کا اثر و رسوخ ہے،یہ چیزیں شرپسندوں کی آنکھوںمیں کھٹکتیں ہیں،وہ مسلمانوں کی  پھلتی پھولتی تجارت کو تہس نہس کرکے مارکیٹ پر بنیا برادری کا قبضہ چاہتے ہیں، اس لئے دونوں طبقوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کے لئے بی جے پی کے مقامی لیڈروں نے راتوں رات ایسی ا سکرپٹ تیار کی ۔اس سے قبل ضلع مظفر پور کے اورائی بلاک واقع ایک کثیر مسلم آبادی والی بستی ’ہرپور بیشی‘ میں رمضان المبارک کے آخر عشرہ میںفرقہ پرستوں نے یہاں کے امن و امان کو غارت کرنے کی بھر پور کوشش کی تھی ،مگراس بستی کےمسلمانوں نے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اس آفت کو جھیل لیا اور کشت خون سے یہ گاؤں محفوظ رہا،مگر اس وقت بھی شرپسندوں کی  زبان پر یہی نعرے تھے کہ ’مودی جی کی ہے سرکار کوئی کیا کرےگا یار!اور اسی قسم کے عز م کا اظہار داؤدنگر میں بھی شرپسندوں نے کیا۔اس  حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ وزیر اعظم نریندرمودی کی فرقہ وارانہ فسادت پرخاموشی سے ایسے عناصر کے حوصلے مزید بلند ہوتے جا رہےہیں جوہندوستان کو بھگوارنگ میں رنگنے کا خواب طویل مدت سے دیکھ رہے ہیں۔



Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا