نفرت بھرے دلوں میں محبت کی تلاش!
ڈاکٹرشہاب الدین ثاقب
’بچو ہم ایک کھیل کھیلنے جا رہے ہیں ،جس کے آخر میں آپ کو ایک اہم درس ملے گا، کیا آپ یہ کھیل کھیلنے کیلئے تیار ہیں؟بچوں نے یک زبان ہو کر کہا’ جی بالکل‘!تب ٹیچر نے کہا آپ کل جب ا سکول آئیں تو اپنے ساتھ ایک شاپنگ بیگ میں اتنے ٹماٹر ڈال کرلائیں جتنے لوگوں سے آپ نفرت کرتے ہیں‘۔ دوسرے دن ہر بچے کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا اور کسی میں ایک ٹماٹر ، کسی میں دو اور کسی میں پانچ ٹماٹرتھے۔ ٹماٹروں کی تعداد یہ ظاہر کررہی تھی کہ وہ کتنے لوگوں سے نفرت کرتےہیں۔ٹیچر نے سب بچوں سے کہا آپ لوگ اپنے اپنے شاپنگ بیگز کوبند کرلیں اور ان کو ہر وقت اپنے پاس رکھیں۔ چاہے آپ کلاس میں ہوں ، گھر میں ہوں، سورہے ہوں یاکھانا کھا رہے ہوں، یہ شاپنگ بیگ آپ کے پاس رہے اور ہاں یہ کھیل ایک ہفتہ کیلئے ہے۔
سب بچوں نے کہا’ جی ہم سمجھ گئے۔ یہ تو بڑا آسان سا کھیل ہے‘لیکن یہ آسان کھیل بچوں کیلئے بہت مشکل ثابت ہوا۔ دوسرے ہی دن ٹماٹروں سے بد بو آنا شروع ہوگئ، جن کے پاس زیادہ ٹماٹر تھے یعنی جو بچے زیادہ لوگوں سے نفرت کرتے تھے، ان کیلئے دہری مصیبت تھی۔ بدبو کے ساتھ وزن اٹھانا اور اسے ہر وقت اپنے پاس رکھنا ایک عذاب بن گیا ۔لہذا بچےجلد ہی تنگ آگئے، لیکن کھیل ایک ہفتے کا تھا،اس لئےتیسرے، چوتھے دن ہی بچوں کی ہمت جواب دینے لگی۔ بد بو سے سب کا برا حال تھا۔ انہوں نے ٹیچر سے کہا’ میڈم یہ کھیل جلدی ختم کریں ورنہ ہم بیمار پڑجائیں گے‘۔ٹیچر نے بچوں کی پریشانی دیکھی تو کہا’ ٹھیک ہے کھیل آج ہی ختم کردیتے ہیں۔
اس واقعہ کی غیر معمولی اہمیت اس وجہ سے ہےکہ جب سب بچے ان ٹماٹروں کو پھینک کر واپس کلاس میں آئے تو ٹیچر نے انہیں جو نصیحت کی اس میں ہر انسان کیلئے زندگی کا ایک اہم راز چھپا ہے۔
’’بچو! آپ نے دیکھا کہ آپ جتنے لوگوں سے نفرت کرتے تھے، انکی علامت کے طور پر ٹماٹر ساتھ رکھنا کتنا مشکل اور تکلیف دہ کام تھا،ہم جب کسی سے نفرت کرتے ہیں تو اس کا احساس ہمارے دل میں رہتا ہے، اور یہ احساس، یہ سوچ ان ٹماٹروں کی طرح جب کئی دنوں تک پڑی رہتی ہے توبدبو پیدا کردیتی ہے، تعفن پھیلا دیتی ہے۔ ذرا سوچئے! ہم کتنے مہینوں، سالوں سے یہ بدبو بھرا تعفن زدہ احساس اپنے دل میں رکھے ہوئے ہیں ، کیا ہمارا دل اس سے تنگ نہیں ہوتا،اگر ہم اس بدبو اور گندگی کی جگہ محبت جیسا خوشبو انگیز احساس دل میں رکھیں تو ہمارا دل خوش نہیں ہوگا؟‘‘
ہندوستان اور پاکستان یہ دو نوں ایسے ممالک ہیں جن کی دشمنی جگ ظاہرہے، اورکبھی خدا نہ خواستہ ان کے درمیان اچھے رشتے قائم ہو جائیں تو بھی اس پر یقین کرنا آسان نہیں ہوگا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ سنگین اور ناگفتہ بہ حالات میں دونوں طرف کےسیاست دانوں کے مابین علیک سلیک ہوجاتی ہے تو بھی ان کو محبت نہیں نفرت کی نگاہ سے ہی دیکھا جاتا ہے ۔لہٰذااس نکتہ کو نظر اندازکرکے دونوں ملکوں کے رشتوں میں حائل کھٹاس کودائمی طور پر ختم کرنا دور کی کوڑی ہے۔
پشاور آرمی اسکول کا حالیہ سانحہ جس میں انسان کے بھیس میں چند شیطانوں نے حیوانیت کی ایک بدنما تاریخ رقم کی ہے اس کی پوری دنیا نے کھلے دل سے مذمت کی اور سو سے زائد بچوں کے قتل عام پر دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی، نیز غم اور دکھ کی اس گھڑی میںپاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا ۔سرحد کے اس پار ہندوستان میں بھی طالبانیوں کے اس وحشیانہ کھیل پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔کیا بچے کیا بوڑھے،مردو خواتین ،سیاست داں اور سماجی کارکنوں کا درد غم سے کلیجہ باہر آگیا۔ہندوستانی پارلیمنٹ کےدونوں ایوانوں میں تعزیتی قرار داد پیش کی گئی اور دو منٹ خاموشی اختیار کرکے پشاور سانحہ کے ۱۴۸؍ہلاک شدگان کوخراج عقیدت پیش کیا گیا ۔پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر دہشت گردانہ حملے کی پرزور مذمت کی گئی اور بچوں کے قتل عام کو وحشیانہ عمل قرار دیا گیا ۔لوک سبھا میں منظور کی گئی تجویز میں پاکستان کے عوام ، متاثرہ خاندان کے تئیں اپنی ہمدردی اور رنج و غم کا اظہار کیا گیا ،خودوزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہم منصب پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو فون کرکے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں ہندوستان پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور ہر ممکن مدد دینے کیلئے تیار ہے،مگر یہ ایک کڑوی سچائی ہے کہ یہاں بھی پاکستان نے بھارت کے خلوص اور اس کی ہمدردی کونفرت کی آنکھ سے ہی دیکھا اور پاکستانی میڈیا نےطنزیہ سرخی لگائی۔ ایک اخبار نے’’ بھارتی ٹیم کی بے حسی پر دْنیائے کرکٹ شرمندہ‘کے عنوان سے لکھا کہ’بھارتیوں کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لیکن گزشتہ دنوں پشاوراسکول سانحے کے بعد اْمید تھی کہ بھارتی کرکٹ ٹیم انسانیت کا ثبوت دے گی اور برسبین میں میچ سے قبل دومنٹ کی خاموشی یا پھر کم ازکم بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر میدان میں اْترے گی ،مگر افسوس کہ ایساکچھ بھی نہیں کیا گیا ۔اسی اخبار میں ایک سرخی تھی’سانحہ پشاور‘بھارتی وزیر خارجہ نے بھی قربانی دے دی‘۔یہ تو پاک میڈیا کا حال ہے لیکن پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف اور ایک کرنل صاحب تو اور آگے نکل گئے اور بیان بازی میں ممبئی ۱۱؍۲۶حملہ کے ماسٹر مائنڈ جماعت الدہ کے سربراہ حافظ سعید کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
مشرف نے پشاور آرمی اسکول پر دہشت گرد حملہ کیلئے ہندوستان کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ایک انگریزی نیوز چینل سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں فضل اللہ کون ہے؟ وہ تحریک طالبان کا پاکستان کمانڈر ہے،مجھےاس بات پر مکمل یقین ہے کہ پاکستان میں حملے کیلئے افغانستان کی سابق کرزئی حکومت اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے اس کا ساتھ دیا ہے،اور طالبان کمانڈر کو بھارت اور افغانستان نے ہی ٹرینڈ کیا ہے۔
ہندوستان میں بھی مسلمان دشمن بھگوا تنظیموں کی کمی نہیں ہے ،اور ان سنگھی جماعتوں کے دلوں میں بھی مسلمانوں کے تئیں نفرت ہی نفرت ہے،پھربھی آپ نے شاید ہی یہ سنا ہو گا کہ یہ تنظیمیں پاکستان میں کسی تخریبی کارروائی یا دہشت گرادنہ حملے کی کھلی دھمکی دیتی ہوں۔ہاں حکومت پر دباؤ ضروربناتی ہیں، مگر یہ نہیں کہتیں کہ ہم پاک پر حملہ کردیں گے۔جبکہ مملکت خداداد میں موجود شدت پسند تنظیمیں کھل کر بھارت کے خلاف زہر اگلتی رہتی ہیں ،متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اس کے باوجود پاکستان ان کی پیٹھ تھپتپاتا رہتا ہے،جس کا نتیجہ ہے کہ اب یہ لوگ پاکستان کے لئے ناسور بن چکے ہیں۔ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جماعت الدعوۃ کے سرغنہ حافظ سعید نے پشاور سانحہ پر عالمی حکمراں کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے کی کوشش کی اور اس انسانیت سوز حرکت کے مجرموں کی حمایت کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری ہندوستان کے سر پر تھوپ دی اور انتہائی بےشرمی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے کہاکہ’ مودی اس حملے کو لے کر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں،لگے ہاتھ اس نے ہندوستان سے اس حملے کا بدلہ لینے کی وارننگ دےدی ۔ یہ وہ عناصر ہیں جن کی زندگی کامقصد ہی نفرت اور خوف پھیلانا ہے ،لیکن نفرت بھرے ان دلوں میں محبت کی جوت جگانا ہی انسانیت اور وقت کا تقاضا ہے۔(بصیرت فیچرس)
(مضمو ن نگار انقلاب دہلی کے سینئر سب ایڈیٹر ہیں)
’بچو ہم ایک کھیل کھیلنے جا رہے ہیں ،جس کے آخر میں آپ کو ایک اہم درس ملے گا، کیا آپ یہ کھیل کھیلنے کیلئے تیار ہیں؟بچوں نے یک زبان ہو کر کہا’ جی بالکل‘!تب ٹیچر نے کہا آپ کل جب ا سکول آئیں تو اپنے ساتھ ایک شاپنگ بیگ میں اتنے ٹماٹر ڈال کرلائیں جتنے لوگوں سے آپ نفرت کرتے ہیں‘۔ دوسرے دن ہر بچے کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا اور کسی میں ایک ٹماٹر ، کسی میں دو اور کسی میں پانچ ٹماٹرتھے۔ ٹماٹروں کی تعداد یہ ظاہر کررہی تھی کہ وہ کتنے لوگوں سے نفرت کرتےہیں۔ٹیچر نے سب بچوں سے کہا آپ لوگ اپنے اپنے شاپنگ بیگز کوبند کرلیں اور ان کو ہر وقت اپنے پاس رکھیں۔ چاہے آپ کلاس میں ہوں ، گھر میں ہوں، سورہے ہوں یاکھانا کھا رہے ہوں، یہ شاپنگ بیگ آپ کے پاس رہے اور ہاں یہ کھیل ایک ہفتہ کیلئے ہے۔
سب بچوں نے کہا’ جی ہم سمجھ گئے۔ یہ تو بڑا آسان سا کھیل ہے‘لیکن یہ آسان کھیل بچوں کیلئے بہت مشکل ثابت ہوا۔ دوسرے ہی دن ٹماٹروں سے بد بو آنا شروع ہوگئ، جن کے پاس زیادہ ٹماٹر تھے یعنی جو بچے زیادہ لوگوں سے نفرت کرتے تھے، ان کیلئے دہری مصیبت تھی۔ بدبو کے ساتھ وزن اٹھانا اور اسے ہر وقت اپنے پاس رکھنا ایک عذاب بن گیا ۔لہذا بچےجلد ہی تنگ آگئے، لیکن کھیل ایک ہفتے کا تھا،اس لئےتیسرے، چوتھے دن ہی بچوں کی ہمت جواب دینے لگی۔ بد بو سے سب کا برا حال تھا۔ انہوں نے ٹیچر سے کہا’ میڈم یہ کھیل جلدی ختم کریں ورنہ ہم بیمار پڑجائیں گے‘۔ٹیچر نے بچوں کی پریشانی دیکھی تو کہا’ ٹھیک ہے کھیل آج ہی ختم کردیتے ہیں۔
اس واقعہ کی غیر معمولی اہمیت اس وجہ سے ہےکہ جب سب بچے ان ٹماٹروں کو پھینک کر واپس کلاس میں آئے تو ٹیچر نے انہیں جو نصیحت کی اس میں ہر انسان کیلئے زندگی کا ایک اہم راز چھپا ہے۔
’’بچو! آپ نے دیکھا کہ آپ جتنے لوگوں سے نفرت کرتے تھے، انکی علامت کے طور پر ٹماٹر ساتھ رکھنا کتنا مشکل اور تکلیف دہ کام تھا،ہم جب کسی سے نفرت کرتے ہیں تو اس کا احساس ہمارے دل میں رہتا ہے، اور یہ احساس، یہ سوچ ان ٹماٹروں کی طرح جب کئی دنوں تک پڑی رہتی ہے توبدبو پیدا کردیتی ہے، تعفن پھیلا دیتی ہے۔ ذرا سوچئے! ہم کتنے مہینوں، سالوں سے یہ بدبو بھرا تعفن زدہ احساس اپنے دل میں رکھے ہوئے ہیں ، کیا ہمارا دل اس سے تنگ نہیں ہوتا،اگر ہم اس بدبو اور گندگی کی جگہ محبت جیسا خوشبو انگیز احساس دل میں رکھیں تو ہمارا دل خوش نہیں ہوگا؟‘‘
ہندوستان اور پاکستان یہ دو نوں ایسے ممالک ہیں جن کی دشمنی جگ ظاہرہے، اورکبھی خدا نہ خواستہ ان کے درمیان اچھے رشتے قائم ہو جائیں تو بھی اس پر یقین کرنا آسان نہیں ہوگا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ سنگین اور ناگفتہ بہ حالات میں دونوں طرف کےسیاست دانوں کے مابین علیک سلیک ہوجاتی ہے تو بھی ان کو محبت نہیں نفرت کی نگاہ سے ہی دیکھا جاتا ہے ۔لہٰذااس نکتہ کو نظر اندازکرکے دونوں ملکوں کے رشتوں میں حائل کھٹاس کودائمی طور پر ختم کرنا دور کی کوڑی ہے۔
پشاور آرمی اسکول کا حالیہ سانحہ جس میں انسان کے بھیس میں چند شیطانوں نے حیوانیت کی ایک بدنما تاریخ رقم کی ہے اس کی پوری دنیا نے کھلے دل سے مذمت کی اور سو سے زائد بچوں کے قتل عام پر دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی، نیز غم اور دکھ کی اس گھڑی میںپاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا ۔سرحد کے اس پار ہندوستان میں بھی طالبانیوں کے اس وحشیانہ کھیل پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔کیا بچے کیا بوڑھے،مردو خواتین ،سیاست داں اور سماجی کارکنوں کا درد غم سے کلیجہ باہر آگیا۔ہندوستانی پارلیمنٹ کےدونوں ایوانوں میں تعزیتی قرار داد پیش کی گئی اور دو منٹ خاموشی اختیار کرکے پشاور سانحہ کے ۱۴۸؍ہلاک شدگان کوخراج عقیدت پیش کیا گیا ۔پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر دہشت گردانہ حملے کی پرزور مذمت کی گئی اور بچوں کے قتل عام کو وحشیانہ عمل قرار دیا گیا ۔لوک سبھا میں منظور کی گئی تجویز میں پاکستان کے عوام ، متاثرہ خاندان کے تئیں اپنی ہمدردی اور رنج و غم کا اظہار کیا گیا ،خودوزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہم منصب پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو فون کرکے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں ہندوستان پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور ہر ممکن مدد دینے کیلئے تیار ہے،مگر یہ ایک کڑوی سچائی ہے کہ یہاں بھی پاکستان نے بھارت کے خلوص اور اس کی ہمدردی کونفرت کی آنکھ سے ہی دیکھا اور پاکستانی میڈیا نےطنزیہ سرخی لگائی۔ ایک اخبار نے’’ بھارتی ٹیم کی بے حسی پر دْنیائے کرکٹ شرمندہ‘کے عنوان سے لکھا کہ’بھارتیوں کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لیکن گزشتہ دنوں پشاوراسکول سانحے کے بعد اْمید تھی کہ بھارتی کرکٹ ٹیم انسانیت کا ثبوت دے گی اور برسبین میں میچ سے قبل دومنٹ کی خاموشی یا پھر کم ازکم بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر میدان میں اْترے گی ،مگر افسوس کہ ایساکچھ بھی نہیں کیا گیا ۔اسی اخبار میں ایک سرخی تھی’سانحہ پشاور‘بھارتی وزیر خارجہ نے بھی قربانی دے دی‘۔یہ تو پاک میڈیا کا حال ہے لیکن پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف اور ایک کرنل صاحب تو اور آگے نکل گئے اور بیان بازی میں ممبئی ۱۱؍۲۶حملہ کے ماسٹر مائنڈ جماعت الدہ کے سربراہ حافظ سعید کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
مشرف نے پشاور آرمی اسکول پر دہشت گرد حملہ کیلئے ہندوستان کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ایک انگریزی نیوز چینل سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں فضل اللہ کون ہے؟ وہ تحریک طالبان کا پاکستان کمانڈر ہے،مجھےاس بات پر مکمل یقین ہے کہ پاکستان میں حملے کیلئے افغانستان کی سابق کرزئی حکومت اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے اس کا ساتھ دیا ہے،اور طالبان کمانڈر کو بھارت اور افغانستان نے ہی ٹرینڈ کیا ہے۔
ہندوستان میں بھی مسلمان دشمن بھگوا تنظیموں کی کمی نہیں ہے ،اور ان سنگھی جماعتوں کے دلوں میں بھی مسلمانوں کے تئیں نفرت ہی نفرت ہے،پھربھی آپ نے شاید ہی یہ سنا ہو گا کہ یہ تنظیمیں پاکستان میں کسی تخریبی کارروائی یا دہشت گرادنہ حملے کی کھلی دھمکی دیتی ہوں۔ہاں حکومت پر دباؤ ضروربناتی ہیں، مگر یہ نہیں کہتیں کہ ہم پاک پر حملہ کردیں گے۔جبکہ مملکت خداداد میں موجود شدت پسند تنظیمیں کھل کر بھارت کے خلاف زہر اگلتی رہتی ہیں ،متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اس کے باوجود پاکستان ان کی پیٹھ تھپتپاتا رہتا ہے،جس کا نتیجہ ہے کہ اب یہ لوگ پاکستان کے لئے ناسور بن چکے ہیں۔ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جماعت الدعوۃ کے سرغنہ حافظ سعید نے پشاور سانحہ پر عالمی حکمراں کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے کی کوشش کی اور اس انسانیت سوز حرکت کے مجرموں کی حمایت کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری ہندوستان کے سر پر تھوپ دی اور انتہائی بےشرمی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے کہاکہ’ مودی اس حملے کو لے کر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں،لگے ہاتھ اس نے ہندوستان سے اس حملے کا بدلہ لینے کی وارننگ دےدی ۔ یہ وہ عناصر ہیں جن کی زندگی کامقصد ہی نفرت اور خوف پھیلانا ہے ،لیکن نفرت بھرے ان دلوں میں محبت کی جوت جگانا ہی انسانیت اور وقت کا تقاضا ہے۔(بصیرت فیچرس)
(مضمو ن نگار انقلاب دہلی کے سینئر سب ایڈیٹر ہیں)
Comments
Post a Comment