ہم ماضی سے سبق کیوں نہیں سیکھتے

ہم ماضی سے سبق کیوں نہیں سیکھتے

Shahabuudin Logoڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
کہتے ہیں کہ جو قوم اپنے ماضی کی حفاظت نہ کر پائے اس کا حال بد حال اور مستقبل گمنام ،بلکہ معدوم ہوجاتا ہے۔ہمارے سامنے ہندوستان کے سکھ برادری کی مثال موجود ہے۔جو 1984ء کے سکھ فسادات کو بھول نہیں سکے۔امریکہ ،برطانیہ اوردوسرے بڑے ممالک میں جہاں کہیں بھی سکھ ہیں وہ ہندوستان میں اپنی برادری کے بہنے والے خون ناحق کیلئے آج بھی اسی جذبہ کے ساتھ جنگ لڑرہے ہیںیہی وجہ ہے کہ 84کے بعد سے پھر کبھی سکھوں پر منظم حملہ کرنے کی کسی میں جراء ت نہیں ہوسکی۔اس کے برعکس مسلمان ہیں جو اپنی قوم کے دل پر لگے کاری زخم کو بھی بھلادینے کے عادی ہوچکے ہیں،بلکہ اس کو اپنے بہتر مستقبل سے جوڑ کردیکھتے ہیں۔نوبت ایں جا رسید کہ مسلمانوں سے ہر کوئی بہ آسانی ہاتھ آزمالیتا ہے ۔بھاگل پور،میرٹھ ملیانہ،بابری مسجد کی شہادت،ممبئی ،گجرات اور مظفرنگرجیسے بڑے مسلم کش فسادات کو یا تو بھول گئے یا ایک دوسرے کو یہ کہہ کربھلانے کی تلقین کرتے رہتے ہیں کہ جو ہونا تھا سو ہوگیاکب تک ان فسادات کو ڈھوتے رہیں۔ہندوستانی مسلمانوں پر ما بعد آزادی ظلم ستم اور فرقہ وارانہ تشدد کی طویل ترین داستان تو یہی بتا تی ہے کہ ہم اپنے ماضی سے کچھ حاصل کیے بغیرروشن مستقبل کی تمنارکھتے ہیں۔
2015ء کے پہلے مہینہ میں بہار کے مظفر پور میں عزیز پور گاوں کے کئی افراد کو زندہ جلادینے والا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔یہ ایک منظم سازش تھی جس میں ضلع حکام اور بہار کی جے ڈی یو حکومت کا کردار پوری طرح شک کے گھیرے میں ہے۔اس لئے ہندوستان کے مسلمانوں سے دلی ہمدردی رکھنے والے رہنماوں نے اگر مظفر پور کے اس قتل و غارت گری کو نظر انداز کردیا تو گویا انہوں نے انصاف اور انسانیت کا قتل کردیا۔یہ وہ سنگھی حملہ تھا جس کے ذریعہ مظفرپور کو مظفرنگر بنانے کی شر پسندوں نے پوری کوشش کی تھی ورنہ دن کے اجالوں میں ،ڈی ایم اور ایس پی کی موجودگی میں اتنے بڑے حملے کو انجام دینا ممکن نہیں تھا۔
منظم حملہ کی بات اس لئے کہی جا رہی ہے کہ مظفرپور ضلع ہیڈ کوارٹرسے عزیز پور کی دوری کوئی بہت زیادہ نہیں ہے اس کے باوجودافراد زندہ جلا دیے گئے۔ بلوائیوں کے ہجوم نے 50گھروں کو آگ کے حوالے کردیا،اقلیتی طبقے کی گاڑیاں، ٹریکٹر، موٹر سائیکلیں اور دیگر قیمتی سامان کو نذر آتش کردیا گیا اور پولیس اہلکار تماشہ دیکھتے رہے۔
 عام طور پر ایسے واقعات کے بعد حکومتیں تحقیقات کا حکم تو دیدیتی ہیں، متاثرین کے لئے معاوضہ کا اعلان بھی ہوجاتا ہے، لیکن جولوگ قانون کے محافظ ہیں وہ بروقت حالات کو کنٹرول نہیں کر پاتے ۔آخرہر بار ایسا کیوں ہوتا ہے ،یہ ایک اہم سوال ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فسطائی طاقتیں مظفر پور کوایک عرصہ سے کشت و خون میں نہلانا چاہتی تھیں۔اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے انہوں نیسب سے پہلیرمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ضلع کے اورائی بلاک میں نیا گاوں پنچایت کے تحت واقع کثیر مسلم آبادی والی بستی ہر پوربیشی کو نشانے پر لیا ، مگرہندتوادی طاقتیں وہاں صرف دہشت پھیلانے میں کامیاب ہو سکیں،اس میں بھی مقامی تھانہ کی رضامندی شامل تھی۔اس کے بعد سے یہ عناصر ایسے مواقع کی تلاش میں تھے اوربالآخر انہیں بڑی کامیابی مل گئی۔18جنوری 20154 کو یک طرفہ اور منظم حملے میں مظفر پور کے عزیز پور گاوں کو شرپسندوں نے تہس نہس کردیا۔ملک بھر میں پچھلے فرقہ وارانہ تشدد کے محرکات پر غور کریں تو اس سازش کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے کا آرایس ایس اور انتہا پسند ہندو تنظیموں کا جو پلان ہے اس کے عین مطابق یہ فسادات ہو رہے ہیں،بلکہ نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی کی مرکز میں حکومت آنے کے بعد سے اس میں تیزی آئی ہے۔اس وقت شاید ہی کو ئی ریاست فرقہ پرستوں کے اس عذاب سے بچی ہوئی ہو۔اتر پردیش،مہاراشٹر،گجرات ، دہلی،ہریانہ ،حیدر آباد،بنگلور اور بہارمیں حالیہ دنوں میں پے درپے کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنا نے کے ساتھ ساتھ ان کے گھرو اور دکانوں کو پر نذر�آتش کیا گیا۔ان فسادات کے پیچھے ایک ہی مقصد کار فرمارہا، یعنی مسلمانوں کو اقتصادی طور پر کمزورکرنا۔بہار کے ایک صحافی رجنیش نے سال گذشتہ اورنگ آباد کی مشہور بستی داود نگر میں پیش آنے والی کشیدگی کیاصل محرکات کو اجاگر کرتے ہوئے اسی طرف اشارہ کیا تھا کہ در اصل داودنگر کی بڑی مارکٹ پر مسلمانوں کا اثر و رسوخ ہے لیکن شرپسند اس مارکٹ پربنیا برادری کا قبضہ چاہتے ہیں۔اسی طرح گجرات کے ضلع ہانسوٹ میں جو حالیہ فساد ہوئے ہیں اس میں بھی مقامی بی جے پی ایم ایل اے کا ہا تھ ہونے کی بات سامنے آئی ہے ،اوراس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہاں کے مسلمان اور ہندو دونوں مچھلی کا کاروبار کرتے ہیں، اب فرقہ پرست نہیں چاہتے کہ مسلمان اس پیشے سے وابستہ رہیں۔دیگر ریاستوں کے حالات بھی ان ریاستوں سے مختلف نہیں ہیں،مگر بہار بھگوا ٹولوں کا اہم ٹارگیٹ ہے چونکہ دہلی کے بعد یہاں اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں اور یہ طاقتیں اس وجہ سے پریشان ہیں کہ دہلی کی طرح کہیں بہار میں بھی ان کا یہی حشر نہ ہوجائے چونکہ ریاست کی دو بڑی جماعتوں نے ایک ساتھ انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس لئے ان کاہندو مسلم فسادات کے سہارے بہار پر بھگوا جھنڈا لہرنے کا ارادہ ہے۔اس مقصد کی تکمیل کے لئے بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ پوری اسکرپٹ تیار کررہے ہیں ۔سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی پر ڈورے ڈالنے کی ان کی ایک سازش تو پوری طرح ناکام ہو چکی ہے۔اب دیکھنایہ ہے کہ بہار کے دو بڑے سیکولر رہنما لا لو پرساد یادو اور نتیش کمار ان کی آگے کے پلان کو ناکام کر پاتے ہیںیا نہیں۔کیوں نکہ اکثریتی فرقے کے لوگوں کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے اس لئے ان طاقتوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست میں ہندو مسلم قومی اتحاد کے فروع کے لئے لا لو اور نتیش ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ عزیر پور جیسا دردناک واقعہ دوبارہ نہ پیش آسکے، جہاں مسلمانوں کو چوکی اور چارپائی سے باندھ کر جلا دیا گیا۔لو جہاد،گھر واپسی کے نام پر جبرا مذہب کی تبدیلی،اور کثرت سے بچے پیدا کرنے جیسے متنازع بیانات کے توسط سے بہار کے لوگوں کو بھی اکسایا جا رہا ہے۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ملک کے ان علاقوں میں بھی پھیل گئے، جو امن شانتی کے لئے مشہور تھے اور جہاں کبھی فسادات نہیں ہوئے تھے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سنگھی سوچ کے حامل افراد کے حوصلے کافی بلند ہیں اور ٹھوس کارروائی نہیں ہونے کی وجہ سے ان کے اردوں میں مزید پختگی آتی جارہی ہے۔مودی حکومت آر ایس ایس کے اشارے پر ناچ رہی ہے جس کی وجہ سے ہر جگہ دنگائی اقلیتوں پر مظالم ڈھانے کے ساتھ کشت و خون کا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ہندوستان کی سالمیت اور استحکام کے لئے ہندوقوم پرست جماعتوں کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانا ناگزیر ہے۔
(مضمون نگار سنیئر صحافی ، معروف مصنف اور روزنامہ انقلاب کے سب ایڈیٹر ہیں)

Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا