My article :Mera paigham mohabbat hai jahan tak phunchay,pulished in Inquilab Delhi(27-07-2015)
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
جب جھارکھنڈ کے جمشید پور کو چند انتہا پسند ہندو تنظیمیںجلانے میں لگی ہوئیں تھیں، بجرنگ دل اور وشیو ہندو پریشد کے لوگ شہر کے پر امن ماحول کو ایک معمولی واقعےکے سہارے کشت خون میں تبدیل کرنے آمادہ تھے، ٹھیک اسی دوران ممبئی کے ٹاٹا میموریل اسپتا ل میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہےجمشید پور کے ہی کلو نامی ایک ہندو کو دو مسلمان تنویر عالم اور شفیق احمد قادری موت کے منہ سے نکالنے کی کوشش میں مصروف تھے۔وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ جسے اپنا خون دے رہے ہیں وہ کون ہے اور اس کا تعلق کس ذات ،برادری کا ہے،بس ایک اپیل پر انسانیت کے ناطے وہ اسپتال پہنچ گئے تھے،یہ جانکاری تو انہیں خون دینے کے بعد ملی کہ کلو ایک غیر مسلم ہے اور اتفاق سے اس کا تعلق فرقہ واریت کی آگ میں جھلس رہے شہر جمشید پور سے نکلا۔
ہندوستان میں ہندو مسلم ،سکھ اور عیسائی کےبیچ پھیلائی جا رہی نفرتوں کے درمیان انسانیت کی شمع روشن کرنے والے ایسے لوگوں کی اس ملک میں کمی نہیں ہے،مگربدقسمتی سے سیاست کی پراگندہ چکی میں ان کی کوششیں پس کررائیگاں کردی جاتی ہیں،جبکہ نفرتوں کے سوداگر ہر جگہ کامیاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔جدھر بھی نظر ڈالیےگزشتہ چند برسوں سے ہندوستان میں یہی دیکھنے کو مل رہا ہے،یہ اور بات ہے کہ حالیہ مہینوں میں ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہونے کے بجائے حوصلہ افزائی حکومتی سطح پر ہوئی ہے ،چاہئے مظفرنگر فسادات کا گہنگار ہو ںیا مظفر پور کے عزیز پورگاؤںکے بلوائی یاپھرفرید آباد کے اٹالی گاؤں کے شرپسند سب کی سیاسی اور حکومتی سطح پر پزیرائی کی گئی ہے،نیتاؤں نے اپنا سیاسی الو سیدھا کرنے کے لئےتشدد کے ذمہ دار ان لوگوں کے لئے کیا کیا نہیں کیا۔اسٹیج پر انعامات سے نوازا،الیکشن میں ٹکٹ دیا اور جیت کر آنے والے دنگائیوں کو منتری تک بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ان حالات میں اگر یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہندوستان کے سیاسی رہنما فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانے کے لئے سنجیدہ ہیں تو یہ ہماری بھول ہے۔اگر فسادات کے یہ سلسلےرک گئےتو ان کی سیاسی دکان کیسے چلے گی،بے گنا ہ انسانوں کے خون سے اپنی سیاست کے محل تعمیر کرنے والے ہندوستانی قائدین جس دن یہ تہیہ کر لیں گے اب وہ ملک میں آگ اور خون کی ہولی کھیلنے والے انسانیت کے دشمنوں کا ساتھ نہیں دیں گے تو مجھے پورا یقین ہے کہ ہندوستان کوامن وامان کا گہوارہ بننے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔
شفیق قادری نےکلو کو خون دیتے وقت یہ خیال نہیں کیا کہ بلوائیوںکے خوف و دہشت کے سبب جمشید پور میں ان کے بچے راتوں میں سو رہے ہیں یا نہیں؟۔ان کا مقصد تو بس زندگی کی جنگ لڑ رہے کلو کے غمزدہ اہل خانہ کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنا تھا۔شرپسندعناصر وںیہ پیغام دینا تھاکہ ہندوستا ن کےسیکولرازم کی بنیاد اب بھی بہت مضبوط ہے اور ۶۵برسوں بعد بھی ان فسطائی قوتیں جو مسلسل ایک منظم و خطرناک سازش کو انجام تک پہونچانے کیلئے وقتا فوقتا سور پھونکتی رہتی ہیں کو کوئی بڑی کامیابی ہاتھ نہیں لگی ہے،اور جب تک تنویر عالم اور شفیق قادری جیسے لوگ زندہ ہیں یہ عناصر اپنے ناپاک منصوبوں میں’لکیر کے فقیر‘ ہی ثابت ہوں گے‘۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ نفرت کی بیج بونے والے بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے یہ لوگ اس وقت جمشید پور ہی نہیں ملک میںبھر میں فرقہ واریت کا کھیل کھیل رہے ہیں،اور اب تو یہ یقین پختہ ہو چلا ہے کہ ان تخریب کاروں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔کام نہیں صرف باتوں سے پیٹ بھرنے والی بی جے پی کی نریندرمودی کی قیادت میں جب سے این ڈی اے کی حکومت آئی ہےفرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ایک کے بعد ایک شہر میں پھیلتے جا رہے ہیں۔حد تو یہ کہ جو شہر ۱۹۹۲ جیسے بھیانک ملک گیر فسادات کے موقع پر بھی قومی یکجہتی کی شمع روشن کیے ہو ئے تھے ایسے شہر بھی اب محفوظ نہیں رہے۔
ملک بھر میں پھیلتے جارہے فرقہ وارانہ تشدد کی اصل وجوہات کا بہت سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت فرقہ وارانہ منافرت کی بنیاد پر ہی اقتدار میں آئی ہے۔ ۲۰۱۴ کے لوک سبھا انتخابات میںبی جے پی کے لیڈروں نے ایک منظم منصوبے کے تحت فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دی جس کے نتیجے میں وہ دہلی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اس کے بعد سے ہے اسی حربے کو استعمال کیا کیا رہا ہےجس کی وجہ سے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔مظفر نگر،سہارنپور، مرادآباد، دہلی،بڑودا،مظفرپور،اورنگ آباد،فرید آباد اور جمشید پوران سب جگہوں پر تشدد کو ہوا دینے میں آرایس ایس اور اس سے متعلق جماعتیں اور مرکزمیں حکمراںبی جے پی کے لیڈروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، یہاں تک بنگال جیسی ریاست میں بھی بی جے پی ترنمول کانگریس کو شکست دینے کے لئے فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ دے رہی ہے۔یہ بات بہت مشہور ہے کہ بی جے پی نے جب بھی بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد کا سہارا لیا ہے تب تب اس نے اپنی سیاسی قوت کو استحکام بخشا ہے۔ پھر چاہے وہ رام مندر کے لئےرتھ یاترا کے بعد بی جے پی کی دو نشستوں سے بڑھ کر ۹۰؍کے آس پاس سیٹیں جیتنے کا سوال ہو یا حالیہ اتر پردیش کے فسادات کے بعد دہلی کے اقتدار پر اس کا قابض ہونا ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس حکمت عملی کو اپنے رہنماؤں کی بیان بازی اور اپنی ذیلیتنظیموں کے ذریعہ سماج کے اندر تک پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اورپولیس کو ان واقعات پر قابو پانے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی ہے۔
’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی‘ کے مصداق ملک کے حالات بگڑتے جا رہے ہیں،ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول ہے،جس محلے اور جس شہر کے لوگ صدیوں سے ملک جل کر رہ رہے تھے ان کے دلوں میں ان فسطائی طاقتوں نے بڑی چالاکی سے نفر ت کا زہرگھول دیا ہے،غنڈہ گردی ،تشدد اور آگ زنی جیسے واقعات اب عام ہو گئے ہیں ،شرپسند عناصر جب اور جہاں چاہتے ہیں معمولی واقعے کو بنیاد بنا کر اقلیتوں پر حملے کردیتے ہیں،پل بھران کی املاک اور دکانیں نذر آتش کر دی جاتیں ہیںجس کی وجہ سے صرف مسلمان ہی نہیں دوسری اقلیتی برادری میں بھی خوف ہے۔ان کے اندر یہ احساس مزید گہرا گیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت میں وہ محفوظ نہیں ہیں،پولیس ، عدلیہ اور قانون کا خوف شرپسندوں پر بالکل نہیں ہے۔ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی،یہ جرم کرنے کے بعد بھی دندناتے پھرتے ہیں،پولیس اور عدالت میں انصاف نہیں ملنے کی وجہ سے متاثرین و مظلومین خاموش رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ پچھلے تجربات کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ دنوں میں بہار اور بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ممکن ہےکیوں کہ مستقبل قریب میں ان ریاستوں میںاسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، آر ایس ایس اوربی جے پی کی کوشش ہوگی کہ ایسے ماحول کا پورا سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔
(مضمون نگار رونامہ انقلاب دہلی کے سینئر سب ایڈیٹر ہیں)
Comments
Post a Comment