آہ ! عتیق مظفرپوری...




آہ ! عتیق مظفرپوری

معروف صحافی و ادیب عتیق مظفرپوری کا آج انتقال ہو گیا۔وہ ڈینگو سے متاثر تھے اور بہتر اعلاج کیلئے انہیں پٹنہ لایا گیا تھا جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔عتیق مظفرپوری کی ادبی اور صحافتی خدمات کئی دہائیوں پر محیط ہے۔وہ شریف النفس اوراخلاقی معاملات میں انتہائی منکسر المزاج تھے ۔اپنے سے چھوٹوں کی دل سے حوصلہ افزائی فرماتے تھے،ذاتی طور پر وہ مجھ سے بہت زیادہ واقف نہیں تھے ،مگر ان کے متعلق برادرنسبتی مولانا راضوان الحق صاحب سے ہر ملاقات میں بات چیت ہوتی رہتی تھی۔وہ خود بھی عتیق صاحب کے بڑےمداح تھے،ان کی معلومات، تحریر اور ادبی گفتگو کا بار ہا ذکرکرتے اور اپنے نجی معاملات میں بھی ان سے مشورہ لیتے تھے،خود عتیق صاحب بھی مولانا سے صلاح و مشورہ کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔پوری زندگی شدت سےیہ قلق رہے گا کہ دل اور گاؤں دونوںکے بہت قریب رہنے کے باوجو بالمشافحہ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہو سکی۔ابھی چند دنوں قبل روزنامہ انقلاب میں ان کا بہت حساس موضوع پر ایک مضمون’مسلمانوں کی اتحاد کی راہ میں حائل مسلکی دیوار‘کے عنوان سے شائع ہوا ۔جس میں انہوں نے لکھا کہ’’وہ کون لوگ ہیں جو ہمارے نوجوانوںکو اس درجہ گمراہ کرنے پر تلے ہیں کہ وہ اپنے سے مختلف فرقے کے لوگوں کی مسجد کو بھی مسجد تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں‘‘غالبا کسی اخبار میں شائع ہونے والا ان کا یہ آخری مضمون ہے۔
عتیق مظفر پوری کا انتقال ایسے وقت میں جب کے سچی اور اچھی صحافت کی ملک اور ملت کواشد ضرورت ہے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے ۔اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔بالخصوص جاوید بھائی(جاوید رحمانی) جو خود بھی اچھے صحافی ہیں اور بلا تفریق مسلک ومذہب ملی امور میں سرگرم حصہ لیتے ہیں ان کےلئے یہ عظیم صدمہ۔ان کے سر سےایک مشفق باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے ۔اور
صرف ایک والد کا ہی سائبان ہوتا ہے جس کے تلے انسان خود کو حقیقی معنوں میں محفوظ تصور کرتا ہے
۔

Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا