My Afsana:Mohabbat Aitbaar aur Muqaddar

محبت اعتبار اور مقدر


ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب


رحمت بابو کی وطن واپسی کے محض چند ایام بعد موت کی جانکاہ خبر نے تو سبھی دوست دشمن کی جان ہی نکال دی،کیا اپنے اور کیا پرائے سب کی آنکھیں نم اور حالت غیر تھی۔جسم سے جیسے جان نکل گئی ہو،سب دم بخود ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔مانو ان کی موت نہیں ہوئی ہوپری پلان قتل کیا گیا ہو۔
شبو کاکا،عبد الر حیم صاحب،شبراتی چچا،جمن بھائی ،حجن دادی اور جنت پھوپھی تو براہ راست رحمت با بو کی موت کا ذمہ دار ان کے لواحقین کو ٹھہرارہی تھیں۔
ارےشبراتی تو کیا جانے بہشتی کو بیوی اور بیٹی نے ہی مل کر مار دیا ہے۔کلموہی اب کرے گی راج!
حجن دادی نے کسی کی پرواہ کئے بغیر دو ٹوک لفظوں میں اپنے دل کی بھڑاس نکا لی۔
جتنے منہ اتنی باتیں ،کوئی کسی کی زبان پر تالا تو نہیں لگا سکتا،اس لئے جس کے جی میں جو آتا وہ بک دیتا۔اس میں ان لوگوں کا کو ئی قصور نہیں تھا بلکہ یہ تو رحمت بابوسے بے پناہ محبت اور لگاؤ کا ادنیٰ سا اظہار تھا جو گاؤں والے اپنے جذبات پر قابو نہیںرکھ پارہے تھے۔
شہر سے میت آچکی تھی ان کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد گاؤں پہنچ چکی تھی ،ادھر دور دراز سے آنے والوں کا خیال رکھتے ہو ئے تدفین کیلئے کچھ وقت بڑھا دیا گیا تھا۔عزیزو اقارب اور معزز شخصیات نے فیصلہ کیا کہ تد فین اگلے دن ظہر کی نماز بعد درکھی جائے تاکہ آخری دیدا رکر نے والوں کو مایو سی نہ ہو۔
رحمت بابو کی موت کا اثر میری طرح بہت سے افراد کے ذہن میں کا فی دنوں تک نقش رہا۔نہ کسی کام میں جی لگتا تھا اور نہ ہی دوست احباب سے بات چیت کر نے میں۔ذہن و دماغ کے مسلسل منتشر اور ماؤف رہنے کی اہم وجہ ایک سچے اور اچھے انسان کا اچانک دنیا سے کوچ کر جا نا تو تھا ہی، علاوہ ازیں مجھے ان کی موت کے پیچھے کی وہ سچائی زیادہ گزند پہونچا رہی تھی جس کی تہہ تک میں بہر صورت پہنچنا چاہتا تھا۔یہ وہ سچائی تھی جس پر انا اور تکبر کا پردہ پڑا ہواتھا۔کسی کے خلوص وپیار کا خون ہوا تھا اوراس گھناؤنے کھیل میں کئی سفید چہرے بھی شریک تھے ،مگرکوئی اپنوں سے یہ شطرنجی چال چل سکتاہے، اس لاینحل گھتی کو سلجھاتے سلجھاتے میں اور الجھ گیا۔
ارے بھائی !دونوں بہن بھائی میں بے لوث محبت تھی،دو جسم ایک جان کی طرح،ان کی زندگی کا ایک ایک پل بسر ہو رہاتھا،تمہیں کچھ نہیں معلوم ہے۔
رات کے مہیب سناٹے میںایک جانی پہچانی آواز میرے کان کے دبیز پردہ سے ٹکرائی ۔یہ آواز شبو کا کا کی تھی جوشبراتی چچا کو کچھ سمجھانجے کی کوشش کر رہے تھے۔
اب میں ان دونوں کی سر گوشی کی طرف ہمہ تن گوش ہو گیا۔میرے بیڈ سے کچھ ہی فاصلہ پر ایک چار پائی پڑی ہو ئی تھی جس پریہ دونوں دوست اکثر اپنے گھروں سے نکل کر رات کی تنہائی میں بیٹھتے ور بیڑی کا لمبا کش لے کر ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹنے کی کوشش کرتے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ آج بھی یہ دونوں کسی خاص موضو ع پر انتہائی سنجیدگی سے گفتگو کرنے والے ہیں اس لئےان کی گفتگو کا کوئی پہلو چھوٹ نہ جائے جھٹ اپنے کانوں کو انگلی سے صاف کیا اورفورا سمت بدل لیا۔
مگر یار !رحمت بابو کی موت کے پیچھے اس کی بہن کی اٹوٹ محبت کافلسفہ میری سمجھ سے باہر ہے، یہ اور بات ہے کہ جسے دیکھو وہ بھائی بہن کو اس واقعہ سے ضرورجوڑرہا ہے۔شبراتی چچا نے بڑ معصومیت سے پو چھا۔
یہی تو اصل کہانی ہے ۔دو نوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دو، قصہ ختم۔
یار تم پھر فلسفیانہ باتیںکر نے لگے۔شبراتی چچا کے پلے جب کچھ نہیں پڑاتو بیچ میں ٹو ک دیا۔
تمسچائی جاننا چاہتے ہو!اس بار شبو کاکا قدرے جذباتی ہو گئے۔پھر متجسس نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا،آس پاس کے حالات کا جائزہ لیا اورشبراتی چچاکا ہاتھ پکڑ کر خود سے قریب کیا۔
سنو!رحمت بابو بڑی لڑکی کی شادی اپنے بھانجہ خوشحال سے کر نا چاہتے تھے۔بھائی بہن کی محبت کو مضبوط اور مستحکم بنا نے کیلئے وہ ہر حال میں اس رشتہ کو انجام تک پہنچا نے کے آرزو مند تھے۔لڑکا لڑکی کو بھی والدین کے فیصلہ پر کو ئی اعتراض نہیں تھا ،بلکہ وہ دونوں بھی کافی حد تک اس انتخاب سےخوش تھے۔گھر خاندان اور قریب و دور کے عزیز و اقارب جوخوشحال اور سحر کے مزاج سے واقف تھے انہیں بھی اس جوڑے پر اطمینان اوراعتبار تھا۔دو نوں میں بڑی حد تک یکسانیت تھی،پھر ایک گھر خاندان اور ماحول میں پلے بڑھے تھے اس لئے سبھی لوگوں نےنیک خواہشات سے نوازا تھا۔
پھر کیا ہوا؟شبراتی چچا کی بے چینی اور بڑھ گئی۔
پھر کیاہوتا؟زندگی کی گاڑی اپنی پٹری پر رواں دواں تھی۔ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ایک دوسرے کے دکھ درد میں خلوص دل سے شریک ہو تے ،شادی بیاہ اور دوسری تقریبات کے موقع پر یہ احساس نہیں ہوتا کہ اصل میزبان کون ہے، لیکن ہنستے مسکراتے اس خاندان کو کس کی نظر لگ گئی کہ ایک پل میں پورا خاندان منتشر ہو گیا۔دو نوں گھرانوں میں دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔محبتیں، نفرتوں میں بدل گئیں ، رازو نیاز کی باتیں منظر عام ہو نے لگیں،اور جب محبتیں ٹوٹ گئیںتونفرتوں نے عداوت کی شکل اختیار کرلی۔شبراتی بھائی اسے کرشمہ قدرت کہو یا کسی کی نظر۔
جب رحمت بابو کی اہلیہ نے اس رشتہ کو توڑ نے کا اعلان کیاتو سبھی حواس باختہ ہو گئے،دوست دشمن کسی کو پہلی بار یقین نہیں آیا۔اور جب بات سچ نکلی تو ہر کسی نے افسوس کا اظہار کیا۔
لیکن شبو بھائی جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا تو اس نے یہ انتہائی قدم کیوں اٹھا یا؟
دیکھو شبراتی!اس رشتہ کو ختم کر نے کی اصل وجہ تو مجھے بھی ٹھیک سے نہیں معلوم،البتہ جنتی بوا کی باتوں پر یقین کیا جا ئے تو سحر کسی کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھی اوردر اصل اس نے ہی انکار کردیا تھا۔
عشق نہ جانے ذات پات!شبراتی ہمارا سماج تیزی سے بدل رہا ہے۔نئی نسل اتنی آزاد خیال ہو تی جا رہی ہے کہ بس اللہ ہی مالک ہے۔ہمارے زمانے میں بڑوں کے صادر کر دہ فیصلوں کی مخالفت تو دور اس پر کو ئی تبصرہ کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔چاہے لڑکا ہو یا لڑکی گھر کے بزرگوں نے جو فیصلہ کردیاوہ پتھر کی لکیر!اللہ اسی میں خیر فرما دیتا لیکن اب وہ زمانہ لد گیا۔نئی نسل کے مزاج میں بڑی تبدیلی آگئی ہے،اپنی زندگی جینے کیلئے وہ آزاد ہیں اورکسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے ،مذہب ،گھر ،خاندان سب کچھ داؤ پر لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔یہی وجہ ہے کہ ہر طرف گندگی پھیلتی جا رہی ہے اور اس کے زہریلے تعفن سے پورا ماحول پراگندہ ہوتا جا رہا ہے۔
تو کیا رحمت نے گھٹنے ٹیک دیئے؟
نہیں شبراتی انہوںنے سمجھوتہ کر لیا ،وہ سات سمند ر پار تھے ،ان کے پاس دوسرا کو ئی راستہ نہیں تھا۔اپنا دکھ درد کس سے بانٹتے ،اپنے بچوں کا دل توڑنا انہوںنے منا سب نہیں سمجھا۔پھر یہاں کا ماحول بھی یک طرفہ تھا ۔ ایک ایک بات ان تک پہنچائی جارہی تھی ،ان لوگوں کو یہ بھی خیال نہیں تھا کہ رحمت بابو پر دل کا دورہ پڑ چکا ہے اور دوسرا حملہ ان کی زندگی کیلئے خطر ناک ہو سکتا ہے۔کوئی نا خوشگوار واقعہ ان کی زندگی کے ٹمٹماتے چراغ کو پل بھر میں بجھا سکتا ہے۔شبراتی اس گھر کی عورتوںکی جرات پر حیرت اور افسوس دونوں ہوتا ہے۔رحمت بابوکی اس حالت سے یہ لوگ بخوبی واقف تھے ،مگر جسے اپنی خوشی عزیز ہو بھلا اسے دوسروںکی زندگی کی کیا پر وا۔
شبو بھائی یہ تو ظلم ہوگیا،لمحہ بھر میںسب تہس نہس ہوگیا۔شبراتی چچانے ایک سرد آہ بھرتے ہو ئے کہا۔
اورسنو ! جب رحمت بابو بدیس سے واپس آئے تو انہیںیہ صدمہ کھائے جا رہا تھا کہ وہ اپنی بہن کا سامنا کیسے کریںگے ۔ ایک با غیرت اورنیک انسان کے لیے یہ بڑی بات تھی ، اپنے ملنے جلنے والوں سے وہ بھائی بہن کے بیچ بڑھتی خلیخ کا کئی بار تذکرہ بھی کر چکے تھے، مگر ان کے گہرے دکھ کو سمجھنے والا کوئی نہ تھا ۔
شادی کی ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں ، لڑکا اور اس کے گھر والوں کے مطالبات اور اپنی بیٹی کی خواہش پرایک ایک چیز خرید نے کے بعد وہ گائوں جانے کی تیاری میں مصروف تھے کہ دل کا شدید دورہ پڑا۔ آنا فانا میں انہیں قریب کے ایک اسپتال میں داخل کرا یا گیا مگر وقت موعود آچکاتھا ساری حسرت اور تمنا کو اپنے دل میں لیے رحمت با بو ملک عدم کو کوچ کرگئے۔
شبراتی زندگی کے بعض فیصلے اتنے نازک ہو تے ہیں کہ انہیں جب تک چند مخلصین سے مشورہ نہ کر لیا جائے عجیب بے چینی رہتی ہے ، مگر اس لڑ کی نے تو اپنا مقدر خود پھوڑ لیا۔ جہاں اپنو ں کا اعتبار کھویا وہیں گائوں سماج کی نظروں سے بھی خود کو گرا لیا ، نا دان نے ۔
شبو کا کا اور شبراتی چچا کی کہانی ختم ہو چکی تھی ، مگر میں بہت دیر تک یہ سوچتا رہا کہ سحر کا نصیب کیسے پھوٹ گیا۔
میرے خیال میں اس کا مقدر تو دراصل وہی تھاجواسے ملا ، اس لیے کہ مقدر کے آگے کسی کی نہیں چلتی اورجو مقدر میں ہوتا ہے وہ ہر حال میں مل کر رہتا ہے۔ہاں جس رشتہ کو اس نے ٹھکرا دیا، وہ محض انسانی کو شش تھی اور انسان کی کوشش کامیابی کی ضامن نہیں ہوتی کہ:
مقدر بھی جو ملتا ہے تو ملتا ہے مقدر سے۔
البتہ ان کے درمیان جو رشتہ تھا وہ دل کا تھا، اعتبار کا دکھ سکھ کا ، خلوص کا ، محبت و ایثار کا تھا۔ تو کیا ان رشتوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہو تی ؟کہ جب جی میں آئے اسے پیرکی جوتیوں سے روند کر اپنی خوشی کا محل تعمیرکرلیا جائے اور کیا ضروری ہے کہ کمزور بنیاد پر کھڑی محبت کی یہ حویلی کبھی مضبوط اور مستحکم بھی ہو۔یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات زندگی کے کسی موڑ پر سحر سے ملاقات ہوئی تو ضرور پوچھوں گا ۔

Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا