Saffron terrorism and communal forces
- فرقہ پرست طاقتیں اور بھگوا دہشت گردی
اگر ۱۹۹۳ء کے ممبئی بم دھماکوں کے مجرم یعقوب میمن کی پھانسی کے خلاف ’انصاف‘ کی آواز بلند کرنے والے ہندو اور مسلمان غدار وطن ہیں، توبابری مسجد کو شہید کرنے والے،ممبئی فسادات کے گنہگار،گجرات میںہزاروںمسلمانوںکے قاتل،سمجھوتہ ایکسپریس ،مالیگاؤں،اجمیرشریف اور موڈاسا بم دھماکوں کے قصور واروں کوپھانسی دینے کی مخالفت کرنے والے بھگوا دہشت گردوں اور ان کو بچانے میںدن رات ایک کرنے والی سیاسی جماعتوں کو کیا کہیں گے،یہ فسطائی طاقتیں ہندوستان کی دشمن کیوںنہیں ہیں؟
سوال یہ ہے کہ یہ پیمانہ طے کرنے کا ٹھیکہ آرایس ایس اور بی جے پی جیسی ہندوانتہا پسند جماعتوں سے وابستہ افرادکو کس نے دیا ہے،اور ملک کو تقسیم کی راہ پر لے جانے والے یہ فرقہ پرست کس منھ سے ’حب الوطنی‘ کا سرٹیفکٹ بانٹ رہے ہیں،جبکہ یہ باتیں سبھی کے علم میں ہیں کہ ہندوستان کی جمہوریت اور اس کی گنگا جمنی تہذیب کے یہ افراد پشتینی دشمن ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ جیسے مسلمان مخالف اور اسرائیل نواز ملک نے بھی آرایس ایس کو دنیا کی بڑی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں رکھا ہے۔اس سلسلے میں۲۶؍ اپریل ۲۰۱۴ء کو شائع ایک رپورٹ کو دیکھیں جس میں امریکی تھنک ٹینک آبزرو اورینٹ ڈیسائیڈ اینڈ ایکٹ (او او ڈی اے )نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔امریکی تھنک ٹینک کی ویب سائٹ ’’ ٹیررزم واچ اینڈ وارننگ ‘‘ کے تھریٹ گروپ پروفائل میں آر ایس ایس کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ ایک جانبدار اور مشتبہ تنظیم ہے جو ’ہندو راشٹر ‘ کے قیام کے لیے گزشتہ دہائیوں سے انتہائی منظم انداز میںکوشاں ہے۔قابل ذکر ہے کہ اواو ڈی اے کوئی چلتی پھرتی آرگنائزیشن نہیں ہے ،بلکہ یہ امریکہ کی فوجی تنظیم ہے جس کا دہشت گردی اور دوسرے معاملات میں اہم رول ہے،ایسے حساس ادارے نے آر ایس ایس کو بی جے پی کی معاون آرگنائزیشن بتاتے ہوئے ہندو نیشنلسٹ پارٹی ،جبکہ آر ایس ایس کو ہندو نیشنلسٹ تحریک بتایا ہے۔اس کے مطابق آر ایس ایس کو یہ قطعی پسند نہیں ہے کہ مسلمانوں کا کسی بھی طرح سے دفاع کیا جائے،ادارے نے آر ایس ایس کے سخت گیر موقف کو واضح کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ سنگھ پریوار ہندتوا کے لئے فرقہ وارانہ فسادات کو بہت ضروری سمجھتاہے۔
ایسی سخت گیر ہندتوادی تنظیم اور اس سے وابستہ بھگوا جماعتوں کے لوگ ہندوستان میں عدل و انصاف کی مانگ کر رہے دیش بھکتوں کو دہشت گرد غدار کہیں گے تو اس سے بڑی ستم ظریفی کی بات اورکیا ہو سکتی ہے۔ان لوگوں کے ارادے کتنے خطرناک ہیںاس کا علم ہندوستان سے پیار کرنے والے ہر طبقے کے لوگوں کو بخوبی ہے۔خاص کرجمہوریت پسند رہنما، صحافت اورحقوق انسانی سے جڑی شخصیات بی جے پی اور آر ایس ایس کی خطرناکی سے جب بھی انہیں موقع ملتا ہے ملک کے عوام کو آگاہ کرنے میں ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچاتے ہیں۔اور اس بار بھی یہی ہوا ہے،جب یعقوب میمن کی پھانسی کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے والی یہ ہستیاں کھل کر سامنے آگئیں تو’بھگواگردی کو فروغ دینے والے یہ نیکر دھاری ککرمتے کی طرح نکل پڑے اور اس معاملے کو دیش بھکتی سے جوڑکر ملک کے عوام کو غلط پیغام دینے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔انہوں نے سمجھا کہ اس قسم کے حساس ترین ایشو پر ہی ملک کے ہندوؤں کو یکجا کیا جا سکتا ہے،تاکہ اس کا فائدہ بہار کے اسمبلی انتخابات میں پوری طرح اٹھایا جاسکے،مگر ان کی سب تدبیریں الٹی ہوگئیں،کانگریس اور سماج وادی کو چھوڑ کر زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے یعقوب کو پھانسی دینے کی مخالفت کی۔سماج وادی پارٹی اور کانگریس میں بھی ایک رائے نہیں تھی ،ان کے چوٹی کے رہنماؤں نے پارٹی کے موقف سے ہٹ کرمیڈیا میں کھل کر بات کی۔یہاں پر دگ وجے سنگھ،ششی تھرور اور سماج وادی کے ابوعاصم اعظمی کا نام بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔
اچھی بات یہ تھی کہ سیکولر پارٹیوں کے جن لیڈروں نے یعقوب میمن کی پھانسی کی حمایت کی، انہوں نے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ بابری مسجد کو شہید کرنے والے،ممبئی اورگجرات کے مسلم کش فسادات کے مجرموں کے علاوہ مالیگاؤں،سمجھوتہ ایکسپریس اور اجمیر بم دھماکوں کے مجروں کو بھی اسی طرح سے مودی حکومت سولی پر چڑھائے،یہ انصاف کا تقاضہ ہے۔یہی وہ مانگ تھی جس پر بھگوا ٹولہ بلبلا اٹھا اور ان ہندو انتہا پسندوں کے لئے پھانسی کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کے لئے ’دیش دروہ‘ کا فرمان جاری کردیا۔اس سلسلے میں تری پورہ کے گورنر تتھاگت رائے نے آر ایس ایس کے سامنے اپنا رتبہ بڑھانے کے لئے عہدے کا بھی پاس و لحاظ نہیں رکھا اور انسانیت کی سبھی حدوں کو پار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیاکہ ’ یعقوب کے جنازے میں شامل لوگ ممکنہ دہشت گرد ہو سکتے ہیں،لہذاخفیہ ایجنسیوں کو جنازے میں شامل افراد پر نظر رکھنی چاہیے۔یہاں پر یہ تذکرہ ناگزیر ہے کہ سابق چیف جسٹس آف انڈیا التمش کبیر نے تتھاگت رائے کے بیان کی سخت تنقید کی ہے اور فرمایا ہے کہ مسٹررائے نے جو کچھ کہا وہ قومی پالیسی میں مداخلت کے مترادف ہے جو ایک گورنرکی حیثیت سے انہیں قطعی نہیں کرنا چاہئے تھا،گورنر ایک آئینی اتھارٹی ہوتا ہے جسے ہر طرح کے تعصب اور بدگمانی سے بالاتر ہونا چاہئے،رائے نے جس طرح کا تبصرہ کیا ،اس کی ان سے توقع نہیں کی جاتی‘۔
دہشت گردی اگر ملک کے لئے چیلنج ہے تواس کے حل کا واحد راستہ عدل و انصاف کا راستہ ہے۔غیر منصفانہ طرز عمل کو اختیار کرکے ہندوستان کیا دنیا کا کوئی بھی ملک بدامنی کو پھیلنے سے نہیں روک سکتا۔اس لئے ملک کے مفاد اور امن کے قیام کیلئے حق کا نعرہ لگانے والوں کی آواز کودبانے کے بجائے ان مطالبات پر ارباب حل و عقد کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔جس طرح سے ہندوستان کے حکمراں ایک مخصوص فکر و نظریے کو فروغ دینے کی کوشش میں اقلیتوں کو نظرانداز کر رہے ہیں،یہ انتہائی خطرناک ہے،اور ملک کو بارود کے ڈھیر پر لے جانے کے مترادف ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں بی جے پی کے اقتدارمیں آنے کے بعدسے گزشتہ چند مہینوں میں جس طرح سے ہر طرف بدامنی کا دور دورہ ہے،معمولی باتوں پرہندومسلم جھگڑے فسادات کا رخ اختیار کرلیتے ہیں۔ایک ہی سرزمین پر برسوں سے میل محبت سے رہ رہے لوگوں کے دلوں میںنفرتیں جگائی جا رہی ہیں،اوراقتدار حاصل کرنے کے لئے ہندواور مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے۔ظاہر ہے ان حالات کے لئے صرف ایک کمیونٹی کو ذمہ دار نہیں ٹھرایا جاسکتا،اپنی نادانیاں بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں ،ہمیںاشتعال دلانے والے افراد پر نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ دوست اوردشمن کی بھی تمیز کرنی ہوگی،مگر سب سے بڑی ذمہ داری صوبائی و مرکزی حکومت کی ہے کہ وہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو تعصب کی نظر سے دیکھنے کے بجائے ایک آنکھ سے دیکھے۔اس کے بغیر امن و آشتی، ترقی اور خوشحالی کا خواب دیکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی میںسینئرسب ایڈیٹر ہیں۔)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in
Comments
Post a Comment