The Muslims of India are unsafe in BJP Government ! http://epaper.inquilab.com/epaper/11-oct-2015-3-edition-Delhi-Page-1.html

!مودی حکومت میں غیر محفوظ ہوتے مسلمان

ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب


جب۲۰۱۳ء کے مظفر نگر فرقہ وارانہ فسادات کے گنہگاروں کا کچھ نہیں ہوا ،جنہوں نے دن کے اجالے میں ہزاروں افرادکو بے گھراور درجنوں گاؤوں کو نذر آتش کردیا۔جس فسادنے سیکڑوںخواتین کا سہاگ چھین کر ان کے بچوں کو یتیم کردیا۔جس بھیانک فساد میں مسلم بچیوں کی ظالموں نے عصمت تار تار کی اس انسانیت سوز فساد ات کے قصور وارآج بھی مظلومین و متاثرین کی آنکھوں کے سامنے دندناتے پھر رہے ہیں،اپنا سینہ چوڑا کرکے زندگی گزار رہے ہیں۔مسلمانوں کو قتل کرنے اور انکے بچے بچیو
ں کو بے گھر کرنے پر کچھ کا رتبہ تنظیمی سطح پر بلند ہوا، تو کچھ شرپسندوں کو سر عام نوازا گیا،لیکن حکومت اور پولیس کو ان مجرموں کے خلاف کو ئی ثبوت نہیں ملا۔
ہندوستانی معاشرے میںسرعام کوئی بے گناہ قتل کردیا جاتا ہے،ہر جگہ خون کے دھبے پڑے ہوئے ہوتے ہیں،کئی آستینیں بھی خون آلود ہوتی ہیں، مگر پھر بھی کسی کو ثبوت نہیں ملتا، یہ عجیب بات ہے۔تحقیقات ہوتی ہیں ،کمیشنوں کا قیام ہوتا ہے،برسوں یہ کھیل چلتا ہے ،کروڑوں روپے اس پر خرچ کیے جاتے ہیں، مگر نتیجہ’ ڈھاک کے تین پات‘۔یہی وجہ ہے کہ آج تک بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار اورممبئی ،بھاگل پور،میرٹھ ملیانہ اور گجرات قتل عام جیسے سنگین معاملوں میں مجرموں کو سزا نہیں ہو سکی۔اور ان فسادات کے کلیدی ملزمین یاتو  بری کردیے گئے یا  عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔
جب اتنے بڑے فرقہ وارانہ تشدد کے ذمہ داروں کا کچھ نہیں ہوا، تو دادری کے محمد اخلاق کے قتل کا کیا ہو گا۔حکومت بھی وہی جو مظفر نگر فساد کے وقت تھی اور قاتل بھی وہی لوگ۔رپورٹ بھی اتر پردیش کے گورنر کے پاس پڑی ہوئی ہے،امید ہے کہ چند ماہ بعد دادری سانحہ کی بھی رپورٹ آجائے گی۔ابتدائی تفتیش کے دوران جو۱۰؍ملزمین  پکڑے گئے ہیں ان میں ۷؍ بی جے پی لیڈر کے رشتہ دار ہیں۔ اس لئے قوی امید ہے کہ مظفر نگر کی طرح یہاں بھی لے دے کر معاملے کو سرد بستے میں ڈال دیا جائے گا۔جب مظفر نگر کے گنہگار کا جرم ثابت نہیں ہوا ،تو رات  کی تاریکی میںاخلاق کے گھر پر حملہ کرکے اس کا قتل کرنے والے ہزار ،دو ہزار وحشیوں کے خون کو کون ثابت کرے گا۔
جدید بھارت میں انسانوں کے قتل پر افسوس کم سیاست زیادہ چمکائی جاتی ہے اور بدقسمتی سے مرنے والا مسلمان ہو تو سیاسی جماعتوں کی بلے بلے۔جمہوریت پسند پارٹیوں کے لیڈر ان گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں تو سخت گیر دائیں بازو کی جماعتیں کھل کر قاتلوں کی حمایت میں کھڑی ہو جاتیں ہیں۔اورسیاسی پارٹیوں کی اس لڑائی میںاصل مسئلہ بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔یعنی قصورواروں کو کبھی سزا نہیں مل پاتی یہی ہندوستان کی تاریخ ہے۔نتیاؤں کی چیخ و پکار میں مظلومین کی آہیں دب جاتیں ہیں،ثبوت دھو دیے جاتے ہیں،یہی ہر بار ہوا ہے اور اس بار بھی ہوگا۔
قومی راجدھانی دہلی سے تقریبا۵ ۳؍کلو میٹر کے فاصلے پر دادری کے بساہڑا گاوں میں محض افواہ کی بنیاد پرمشتعل ہجوم نے گھر کے سربراہ  50 سال کے محمد اخلاق کا گھر میں ہی قتل کر کے ان کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے باہر سڑک پر لاکر پھینک دیا گیا،جبکہ ان کے فرزند دانش کو نازک حالت میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں وہ آج بھی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔اخلاق کو فسادیوں نے اس بے دردی سے مارا کہ ان کا چہرہ بری طرح مسخ ہوگیا۔وحشی بھیڑ نے گھر کے کسی فرد کی فریاد و التجا پر کان نہیں دھرا ،اور بزرگ خواتین تک کو زدوکوب کیا۔پولیس ہمیشہ کی طرح یہاں بھی اس وقت پہنچی جب اس گھر کا چراغ  ہمیشہ کیلئے بجھ چکا تھا،گھر میں لگائی گئی آگ ٹھنڈی ہوچکی تھی اور خون کی ہولی کھیلنے والے ہزاروں درندے جاچکے تھے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ دھرم کے نام پر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے،بدقسمتی سے اب حکومت کی باگ ڈور بھی انہیں فسطائی طاقتوں کے خونی پنجہ میں ہے۔ایسے میںاخلاق کے اہل خانہ کو انصاف کہاں سے ملے گا اور کس طرح ملے گا یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہنے والے اس کے پڑوسی اپنا گھر، بار چھوڑ کر فی الحال کہیں روپوش ہو چکے ہیں۔کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ قاتل کون ہے؟ کس نے ،کس کے اشارے پر، کس مقصد سے یہ اسکرپٹ تیار کی کہ ایک ہنستا مسکراتا خاندان تباہ وبرباد کردیا گیا۔
 اس دردناک واقعہ کے بعد ایک بار پھریہ سوال اٹھتاہے کہ کیا مودی اور ملائم کے راج میں کوئی مسلمان خود کو محفوظ تصور کرسکتا ہے؟۔ملک میں اقلیتوں پرپے درپے ہورہے منظم حملوں نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ملک اور بیرون ملک  کیبڑے بڑے مجمع میں انسانیت کی دہائی دینے والے نریندر مودی کے قول و عمل میں اب بھی وہی تضاد ہے جو ۲۰۰۲ کے گجرات فسادات کے وقت تھا۔ اقلیتوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ حضر میں ہوں یا سفر میں انہیںہر جگہ ایک انجاناخوف ستاتا رہتا ہے،وہ اپنے آپ کو کہیں محفوظ نہیںسمجھتے۔
مظفر نگر،مظفر پور،دہلی،آگرہ ،بریلی ،مراد آباد،اٹالی گاؤں،سہارنپور،راجستھان، نوادہ،رانچی اور جمشید پور میں معمولی واقعے کو بیناد بناکر ہی اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔حکمراں جماعت کے لیڈران زہراگل رہے ہیں،انتہا پسند جماعتوں کے لوگ ملک کی سالمیت کو کھلے عام پارہ پارہ کر رہے ہیں، مگر مودی حکومت ان پر لگام کسنے کے بجائے تماشائی بنی ہوئی ہے،اپنے وزراء اور لیڈروں کو کنٹرول کرنے میں نریندر مودی بے اثر ثابت ہو رہے ہیں،یا پھر انہیں کھلی چھوٹ دے دیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سنجیدگی  سے ان حالات کا جائزہ لیں اور ہندو۔مسلمان مل جل ملک کو بارود کے ڈھیر پر لے جانے والی قوتوں سے بچائیں۔
ایک اندازہ کے مطابق صرف اتر پردیش میں عام انتخابات سے لے کر اب تک۶۰۰؍سے زائد فرقہ وارانہ جھڑپیں ہو چکی ہیں،اگر ریاست کی سماج وادی حکومت فسادات کے تئیں سنجیدہ ہوتی تو اعدادو شمار اتنے زیادہ نہ ہوتے۔یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اس طرح کا ماحول بنا کر ایک مخصوص جماعت کوفائدہ پہنچایا جا رہے، اسی مقصد کے تحت ملک بھر میں فرقہ وارانہ تناؤ کو ہوادی جا رہی ہے۔اگر جلد ہی اس پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ ملک کی سالمیت کے لئے انتہا ئی خطرناک ثابت ہوگا۔
غور کرنے کی بات ہے کہ جب سے مرکز میں مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی ہے۔فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔دہلی،ہریانہ،آندھرا پردیش، اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال، چھتیس گڑھ، گجرات، اڑیسہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر،کرناٹک اور راجستھان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات یکھنے کو ملے ہیں۔گزشتہ دنوں وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ایک رپورٹ  کے مطابق ملک میں گزشتہ پانچ ماہ میں فرقہ وارانہ فسادات میں 24 فیصد ،جبکہ ان تشدد میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار اسی سال کے ابتدائی پانچ ماہ (جنوری سے لے کر مئی تک) اور گزشتہ سال کے پہلے پانچ ماہ (جنوری سے لے کر مئی تک) کے تقابلی جائزے کے بعدسامنے آئے ہیں۔ گزشتہ سال پہلے پانچ ماہ (جنوری سے مئی) یو پی اے کی حکومت تھی۔
 وزارت داخلہ کے اعداد و شمار میں  2015 میں جنوری سے مئی کے درمیان کل 287 فرقہ وارانہ تشدد کیس سامنے آئے ہیں جو گزشتہ سال کے 232 فرقہ وارانہ معاملات سے تقریبا 24 فیصد زیادہ ہے۔ وہیں اسی مدت میں فرقہ وارانہ فسادات میں قیمتی جان گنوانے والوں کی تعداد 43 ہو گئی ہے جو گزشتہ سال 26 تھی، گزشتہ سال فسادات میں زخمیوں کی تعداد 701 تھی جو اس سال بڑھ کر 961 ہو گئی ہے۔
 فرقہ وارانہ فسادات کے 2013 اور 2014 کے درمیان تقابلی اعداد و شمار میں سال 2104 میں 2013 کے مقابلے میں کم فسادات ہوئے۔ سال 2013 میں 823 فرقہ وارانہ معاملے سامنے آئے۔ وہیں 2014 میں 644 کیس سامنے آئے۔ 2013 میں فسادات میں مرنے والوں کی تعداد 133 تھی، جو 2014 میں گھٹ کر 95 رہ گئی۔ 2013 میں فرقہ وارانہ فسادات میں زخمیوں کی تعداد 2269 تھی جو سال 2014 گھٹ کر 1961 ہو گئی تھی۔
 بہت سے لوگ 2013 کے مقابلے میں 2014 میں فسادات کی کمی کا کریڈٹ یو پی اے حکومت کودیتے ہیں نہ کہ مودی حکومت کو، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ مئی 2014 کے وسط تک مرکز میں یو پی اے کی حکومت تھی۔


Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا