!my article :khamosh hi rehte to acha tha(خاموش ہی رہتے تو اچھا تھا)
ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
فتنہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جاسکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے
خلیفۃ المسلمین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہؓ کے اس پاک ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ شرو فساد کے وقت انسان اس قدر ہوشیار رہے کہ لوگ اسے استعمال نہ کرنے پائیں اور اس کیتوسط سے فتنہ کی ہوا کو مزیدتیز نہ کرسکے۔اس وقت ہندوستا ن میں بی جے پی اور آرایس ایس کی حکومت کے پس منظر میں اگر غور کیا جائے تو امیرالمومنین حضرت علیؓ کے قول مذکورپر عمل کرنے میں ہی صد فیصد عافیت ا ورنجات ہے۔
2014 کے لوک سبھا انتخابات میں سنگھ کے سب سے قابل رضاکار اور سابق پرچارک نریندر دامودرداس مودی کی قیادت میں بی جے پی کی تاریخی کامیابی کے بعد اقتدار کی باگ ڈورجب کانگریس سے منتقل ہو کر آر ایس ایس کے ہاتھ میں آگئی ،تواسی وقت سے ہندوستان میں نت نئے شوشوں،فتنوں اور نئے نئے تنازعات کا آغاز ہو گیا ،اور ان سب بکھیڑوں میں کسی نہ کسی صورت میں نشانے پر مسلمان ہی رہے۔
اقلیتوں اور دلتوں پر زیادتی،لو جہاد،گھر واپسی،بہو لاو، بیٹی بچاو،چار بچے پیدا کرنے کا مشورہ،بیف کھانے والے ملک چھوڑ دیں ،وندے ماترم اور اب بھارت ماتا کی جے۔حکومت میں شامل لوگوں کے ذریعہ وقفے وقفے سے لگائے گئے یہ وہ نعرے ہیں جن پر بہت زیادہ غورو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،بات آسانی سے بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ان نعروں کا کیا مطلب ہے۔؟مسلمانوں کو نشانہ بنانااور انہیں مختلف مسائل میں الجھاکر رکھنا یہ سب سنگھی سازشوں کا حصہ ہے،جس پر مودی حکومت میں مسلسل عمل ہو رہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ جب بات ملک سے محبت کی آتی ہے تو سب سے پہلے وہی لوگ برساتی میڈکوں کی طرح باہر نکل کر شور و غل مچانے لگتے ہیں جن کا ملک کی آزادی میں دوردور تک کوئی کردار نہیں تھا،لیکن بدقسمتی سے آج یہی لوگ حب الوطنی کی سند تقسیم کر رہے ہیں۔اور آر ایس ایس جیسی دیگر انتہا پسند اور مسلم مخالف تنظیمیں یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہیں کہ بھارت ماتا کی جے کہنے والے ہی اصلی محب وطن ہیں اور جو یہ نعرہ نہیں لگاتے وہ ملک کے غدار ہیں۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بھارت ماتا کی جے کا نعرہ کوئی نیا نعرہ نہیں تھا ،یہ غیر ضروری تنازع بہت پرانا ہے اوراس پر ہر زمانے میں لوگوں کی مختلف رائے رہی ہے۔زورادربحثیں بھی ہوئی ہیں،ہندووں کا ایک بڑا طبقہ اسی لئے بی جے پی اور سنگھ کے لیڈروں کے خلاف میدان میں ڈٹا ہوا ہے کہ انہیں حقیقت کا بخوبی علم ہے۔یہ لوگ بھارت ماتا کی جے کی آڑ میں بھگوا سیاست کرنے والوں کومنھ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ان کے علاوہ مختلف گوشوں سے بھی اس کی حمایت اور مخالفت میں آواز بلند کی جا رہی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی ، پنڈت جواہر لعل نہرو ، نیتا جی سبھاش چندربوس اور باباصاحب بھیم راو امبیڈکر جیسے چوٹی کے رہنمابھارت ماتا کی جیکے بجائے جے ہند لکھنا پسندکرتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس فضول سے ایشو پر مسلم قائدین کے بیانات دنادن آنے چائیں یا نہیں۔؟اور ان کے بیانات سے قوم کو کتنا فائدہ ہوااور دشمنوں کو کتنا ،یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔وہ بھی اس صورت میں جب کہ ملی رہنماوں خوداس مسئلے پر ایک رائے نہیں ہے۔ خود جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم مولاناسید ارشد مدنی اور دارالعلوم دیوبند کی بھارت ماتا کی جے پر مختلف رائے ہے،کچھ یہی حال دوسری ملی جماعتوں اور دانشورں کا ہے، تو کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ ہم چپ ہی رہتے اور سنگھیوں کایہ تماشا بیٹھ کراطمینان سے دیکھتے۔
دوسری طرف مسلمانوں کا ہی ایک گروپ ایسا ہے جو اپنے رہنماوں کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے اچھل اچھل کر یہ نعرہ لگا رہا ہے،ایسے میں اس قسم کے فتوے اور بیانات کی کیا اہمیت رہ گئی؟ البتہ مسلم مخالف لوگوں کو ایک اور موقع مل گیااور ہمیشہ کی طرح اس نے جم کر مار کاٹ کے ساتھ ساتھ ہندوستان چھوڑ دینے کا فرمان جاری کردیا۔مرکزی وزرا،وزیراعلیٰ اورحکومت میں شامل دیگر بڑے لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات آ رہے ہیں جس میں مسلسل دھمکیاں دی جا رہیں ۔ان سب میں بی جے پی کے بابا نے تو اس باریو گی جیسے تیس مار خاں کو پچھاڑتے ہوئے بازی مار لی اوراس حد تک آگے نکل گئے کہ جوش میں ہوش کھو بیٹھے۔
موہن بھاگوت اور نریندر مودی کے اس چہیتے نے کہا کہ کوئی آدمی ٹوپی پہن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ بولتا ہے کہ میں بھارت ماتا کی جے نہیں بولوں گا چاہے میری گردن کاٹ لو، ارے اس ملک میں قانون ہے ورنہ ایک کی کیا ہم تو لاکھوں کی گردن کاٹ سکتے ہیں، لیکن ہم اس ملک کے قانون کا احترام کرتے ہیں۔جب کہ اس جنگ کو چھیڑ نے والے آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت خود اپنے بیان سے یو ٹرن لے چکے ہیں کہ بھارت ماتا کی جے کو کسی پر تھوپا نہیں جا سکتا ہے۔
جے این یو اور کنہیا کمار کے معاملے میں مسلمانوں سے الگ تھلگ رہنے کی اپیل کرنے والے ہمارے ملی قائدین کا ضبط اس بار ٹوٹ گیا اوران کے تواتر سے آنے والے بیانات پر خوب ہائے توبہ مچی ہے۔ دوسری طرف میڈیا نے اس پورے تنازع کو آل انڈیا مجلس اتحاد مسلمین کے صدر اور ایم پی اسد الدین اویسی کے سر منڈ ھ دیا ہے جنہوں نے بھاگوت کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی ان کی گردن پر چھری بھی رکھ دے تب بھی وہ بھارت ماتا کی جے نہیں کہیں گے۔اس واقعہ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مہاراشٹر اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں اویسی کے بیان کی مذمت کی گئی اور تمام ارکان اسمبلی کو ہدایت دی گئی کہ وہ ایوان میں بھارت ماں کی جے کہیں ،حسب ہدایت ایسا کیاگیا مگرمجلس اتحاد مسلمین کے کے واحد رکن وارث پیٹھان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، جس پر انھیں معطل کر دیا گیا۔
شیوسینا نے اویسی سے کہا کہ انہیں پاکستان جانا چاہئے،تومہاراشٹر کے وزیراعلیٰ نے کہاکہ بھارت ماتا کی جے نہیں کہنے والوں کو ملک میں رہنے کا حق نہیں۔ گجرات کے امریلی میں بی جے پی لیڈر نے اپنے اسکولوں میں بھارت ماتا کی جے نہیں بولنے پر داخلہ نہ دینے کا اعلان کیا تویوپی کے ضلع باغپت کی پنچایت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس نعرے کو نہیں کہنے والوں کا سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے گا۔
رام دیوبیان دے کر پھنس چکے ہیں اور سیاسی سطح پر ان کے بیان کی سخت مذمت کی جا رہی ہے ۔ کانگریس اور اپوزیشن کی دوسری سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ رام دیو کا بیان قوم پرستی کو دھندہ بنانے کی کوشش ہے۔کانگریس کے لیڈر سنجے جھا نے کہا کہ بابا کا بیان تشدد پر اکسانے والا ہے اس لئے وزیر اعظم مودی کو اس پر کارروائی کرنی چاہیے۔ابھی یہ جنگ تھمی نہیں ہے اور حالات بتا رہے ہیں کہ جا ری رہے گی،کیوں کہ عوام کو الجھا کر رکھنا مودی حکومت کی پالیسی کا اہم حصہ ہے، اس لئے بقول میرتقی میر:
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا
(مضمون نگارمعروف صحافی انقلاب دہلی میں سینئرسب ایڈیٹر ہیں)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in
خلیفۃ المسلمین سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہؓ کے اس پاک ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ شرو فساد کے وقت انسان اس قدر ہوشیار رہے کہ لوگ اسے استعمال نہ کرنے پائیں اور اس کیتوسط سے فتنہ کی ہوا کو مزیدتیز نہ کرسکے۔اس وقت ہندوستا ن میں بی جے پی اور آرایس ایس کی حکومت کے پس منظر میں اگر غور کیا جائے تو امیرالمومنین حضرت علیؓ کے قول مذکورپر عمل کرنے میں ہی صد فیصد عافیت ا ورنجات ہے۔
2014 کے لوک سبھا انتخابات میں سنگھ کے سب سے قابل رضاکار اور سابق پرچارک نریندر دامودرداس مودی کی قیادت میں بی جے پی کی تاریخی کامیابی کے بعد اقتدار کی باگ ڈورجب کانگریس سے منتقل ہو کر آر ایس ایس کے ہاتھ میں آگئی ،تواسی وقت سے ہندوستان میں نت نئے شوشوں،فتنوں اور نئے نئے تنازعات کا آغاز ہو گیا ،اور ان سب بکھیڑوں میں کسی نہ کسی صورت میں نشانے پر مسلمان ہی رہے۔
اقلیتوں اور دلتوں پر زیادتی،لو جہاد،گھر واپسی،بہو لاو، بیٹی بچاو،چار بچے پیدا کرنے کا مشورہ،بیف کھانے والے ملک چھوڑ دیں ،وندے ماترم اور اب بھارت ماتا کی جے۔حکومت میں شامل لوگوں کے ذریعہ وقفے وقفے سے لگائے گئے یہ وہ نعرے ہیں جن پر بہت زیادہ غورو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،بات آسانی سے بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ان نعروں کا کیا مطلب ہے۔؟مسلمانوں کو نشانہ بنانااور انہیں مختلف مسائل میں الجھاکر رکھنا یہ سب سنگھی سازشوں کا حصہ ہے،جس پر مودی حکومت میں مسلسل عمل ہو رہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ جب بات ملک سے محبت کی آتی ہے تو سب سے پہلے وہی لوگ برساتی میڈکوں کی طرح باہر نکل کر شور و غل مچانے لگتے ہیں جن کا ملک کی آزادی میں دوردور تک کوئی کردار نہیں تھا،لیکن بدقسمتی سے آج یہی لوگ حب الوطنی کی سند تقسیم کر رہے ہیں۔اور آر ایس ایس جیسی دیگر انتہا پسند اور مسلم مخالف تنظیمیں یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہیں کہ بھارت ماتا کی جے کہنے والے ہی اصلی محب وطن ہیں اور جو یہ نعرہ نہیں لگاتے وہ ملک کے غدار ہیں۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بھارت ماتا کی جے کا نعرہ کوئی نیا نعرہ نہیں تھا ،یہ غیر ضروری تنازع بہت پرانا ہے اوراس پر ہر زمانے میں لوگوں کی مختلف رائے رہی ہے۔زورادربحثیں بھی ہوئی ہیں،ہندووں کا ایک بڑا طبقہ اسی لئے بی جے پی اور سنگھ کے لیڈروں کے خلاف میدان میں ڈٹا ہوا ہے کہ انہیں حقیقت کا بخوبی علم ہے۔یہ لوگ بھارت ماتا کی جے کی آڑ میں بھگوا سیاست کرنے والوں کومنھ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ان کے علاوہ مختلف گوشوں سے بھی اس کی حمایت اور مخالفت میں آواز بلند کی جا رہی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی ، پنڈت جواہر لعل نہرو ، نیتا جی سبھاش چندربوس اور باباصاحب بھیم راو امبیڈکر جیسے چوٹی کے رہنمابھارت ماتا کی جیکے بجائے جے ہند لکھنا پسندکرتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس فضول سے ایشو پر مسلم قائدین کے بیانات دنادن آنے چائیں یا نہیں۔؟اور ان کے بیانات سے قوم کو کتنا فائدہ ہوااور دشمنوں کو کتنا ،یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔وہ بھی اس صورت میں جب کہ ملی رہنماوں خوداس مسئلے پر ایک رائے نہیں ہے۔ خود جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم مولاناسید ارشد مدنی اور دارالعلوم دیوبند کی بھارت ماتا کی جے پر مختلف رائے ہے،کچھ یہی حال دوسری ملی جماعتوں اور دانشورں کا ہے، تو کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ ہم چپ ہی رہتے اور سنگھیوں کایہ تماشا بیٹھ کراطمینان سے دیکھتے۔
دوسری طرف مسلمانوں کا ہی ایک گروپ ایسا ہے جو اپنے رہنماوں کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے اچھل اچھل کر یہ نعرہ لگا رہا ہے،ایسے میں اس قسم کے فتوے اور بیانات کی کیا اہمیت رہ گئی؟ البتہ مسلم مخالف لوگوں کو ایک اور موقع مل گیااور ہمیشہ کی طرح اس نے جم کر مار کاٹ کے ساتھ ساتھ ہندوستان چھوڑ دینے کا فرمان جاری کردیا۔مرکزی وزرا،وزیراعلیٰ اورحکومت میں شامل دیگر بڑے لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات آ رہے ہیں جس میں مسلسل دھمکیاں دی جا رہیں ۔ان سب میں بی جے پی کے بابا نے تو اس باریو گی جیسے تیس مار خاں کو پچھاڑتے ہوئے بازی مار لی اوراس حد تک آگے نکل گئے کہ جوش میں ہوش کھو بیٹھے۔
موہن بھاگوت اور نریندر مودی کے اس چہیتے نے کہا کہ کوئی آدمی ٹوپی پہن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ بولتا ہے کہ میں بھارت ماتا کی جے نہیں بولوں گا چاہے میری گردن کاٹ لو، ارے اس ملک میں قانون ہے ورنہ ایک کی کیا ہم تو لاکھوں کی گردن کاٹ سکتے ہیں، لیکن ہم اس ملک کے قانون کا احترام کرتے ہیں۔جب کہ اس جنگ کو چھیڑ نے والے آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت خود اپنے بیان سے یو ٹرن لے چکے ہیں کہ بھارت ماتا کی جے کو کسی پر تھوپا نہیں جا سکتا ہے۔
جے این یو اور کنہیا کمار کے معاملے میں مسلمانوں سے الگ تھلگ رہنے کی اپیل کرنے والے ہمارے ملی قائدین کا ضبط اس بار ٹوٹ گیا اوران کے تواتر سے آنے والے بیانات پر خوب ہائے توبہ مچی ہے۔ دوسری طرف میڈیا نے اس پورے تنازع کو آل انڈیا مجلس اتحاد مسلمین کے صدر اور ایم پی اسد الدین اویسی کے سر منڈ ھ دیا ہے جنہوں نے بھاگوت کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی ان کی گردن پر چھری بھی رکھ دے تب بھی وہ بھارت ماتا کی جے نہیں کہیں گے۔اس واقعہ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مہاراشٹر اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں اویسی کے بیان کی مذمت کی گئی اور تمام ارکان اسمبلی کو ہدایت دی گئی کہ وہ ایوان میں بھارت ماں کی جے کہیں ،حسب ہدایت ایسا کیاگیا مگرمجلس اتحاد مسلمین کے کے واحد رکن وارث پیٹھان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، جس پر انھیں معطل کر دیا گیا۔
شیوسینا نے اویسی سے کہا کہ انہیں پاکستان جانا چاہئے،تومہاراشٹر کے وزیراعلیٰ نے کہاکہ بھارت ماتا کی جے نہیں کہنے والوں کو ملک میں رہنے کا حق نہیں۔ گجرات کے امریلی میں بی جے پی لیڈر نے اپنے اسکولوں میں بھارت ماتا کی جے نہیں بولنے پر داخلہ نہ دینے کا اعلان کیا تویوپی کے ضلع باغپت کی پنچایت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس نعرے کو نہیں کہنے والوں کا سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے گا۔
رام دیوبیان دے کر پھنس چکے ہیں اور سیاسی سطح پر ان کے بیان کی سخت مذمت کی جا رہی ہے ۔ کانگریس اور اپوزیشن کی دوسری سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ رام دیو کا بیان قوم پرستی کو دھندہ بنانے کی کوشش ہے۔کانگریس کے لیڈر سنجے جھا نے کہا کہ بابا کا بیان تشدد پر اکسانے والا ہے اس لئے وزیر اعظم مودی کو اس پر کارروائی کرنی چاہیے۔ابھی یہ جنگ تھمی نہیں ہے اور حالات بتا رہے ہیں کہ جا ری رہے گی،کیوں کہ عوام کو الجھا کر رکھنا مودی حکومت کی پالیسی کا اہم حصہ ہے، اس لئے بقول میرتقی میر:
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا
(مضمون نگارمعروف صحافی انقلاب دہلی میں سینئرسب ایڈیٹر ہیں)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in
Comments
Post a Comment