مؤذن مرحبا بروقت بولا



  • مؤذن مرحبا بروقت بولا

    • ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
    • پوری مسلم امہ اس وقت تحسین و تبریک کی مستحق ہے۔ایسا اس لئے کہ یکسا ںسول کوڈ کے نفاذ کے مسئلہ پرحکومت کی عیاری اور مکاری کو سمجھتے ہوئے جس طرح سے مسلمانوں نے بلا کسی تفریق کے یک جٹ ہو کر مودی سرکار کے خلاف آواز بلند کی ہے اور ابھی تک سینہ سپر ہے اس سے اتنی بات تو طے ہےکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جو بھی آئے، مگر ملت کے اتحاد نے ایک بار پھر سے ملک کے سیاست دانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہےکہ ہندوستان میں مسلمانوں کو بائی پاس کرکے چلنا آسان نہیں ہے۔مسلمان سب کچھ برداشت کرلیں گے، لیکن پرسنل لا میں چور دروازے سے گھس پیٹھ کرنے کو وہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے ملک کے ذی ہوش مرد و خواتین کو حکومت کی نیت کے بارے میں پتہ چلتا گیا،انہوں نے صدائے احتجاج بلند کرنے کو ضروری سمجھا اوراپنے گھروں سے نکل کر ملی قائدین کی آواز میں آواز لگانے لگے۔
    • بات صرف تین طلاق کی ہوتی توشاید اتحاد کی یہ بے نظیرمثال دیکھنے کو نہیں ملتی،کیوں کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے جس پرسبھی مسلک کے ماننے والے اپنے اپنےاعتبار سے عمل پیراں ہیں،جو ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں وہ بھی اور جن کے یہاں ایک ساتھ تین طلاق واقع ہو جاتی ہےوہ بھی۔یہ بات بھی مسلمانوں کے سامنےہے کہ پیغمبر اسلام محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کو جائز امور میں سب سے زیادہ اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ بتایا ہے ۔ جب تک حالات ایسے نہ ہوجائیں کہ بحیثیت شوہر وبیوی رہنا تقریباََ ناممکن ہوجائے طلاق نہ دی جائے، یہ معاشرتی مسئلہ ہے جس کے اصلاح کی ضرورت ہے اور اس سمت میں جتنی کوشش  کرنے کی ضرورت ہے اس پر کام کم ہو رہا ہے جس کی وجہ سے آج مخالفین چوطرفہ حملہ آور ہیں۔ان حقائق کے باوجود یہ بات بھی مسلم ہے کہ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعدبھی مسلمان اپنے شرعی حکم کے خلاف جاکرعدالت کے فرمان کو عائلی زندگی میں نافذ کریں گے،یہ ممکن نہیں ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی آرایس ایس اور بی جے پی کے اشارے پرچلنے والی مسلمان خواتین کی ہفوات اور اس کی حمایت میں کھڑے روشن خیال طبقے کے کچھ افراد  ٹی وی چینلوں پر پری پلان جلائی جاری رہی مسلمان مخالف اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہےہیںاور بظاہر یہ وہم پھیلانے کی کوشش کر رہےہیں کہ وہ مسلمان عورتوں کے حقوق کی بازیابی کی لڑائی لڑرہے ہیں،انکے ہمدرد ہیں۔ہندوستان میں مسلمان خواتین کو انکے حقوق سے محروم کیا جارہاہے،جب کہ ایسا نہیں ہے۔عائلی زندگی میں مسلمانوں کے یہاں جن ادب و احترام و مقام و مرتبہ کے ساتھ عورتوں کو جائیداد سے لے کردوسرے امور میں حقوق مل رہے ہیں کسی مذہب میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے پھر بھی حکومت کے بھکتوں کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی کے چینلوں پر دن بھر یہ بے نتیجہ بحث چلتی رہتی ہے۔ملک بھر کے بنیادی مسائل بے روزگاری ،مہنگائی،غربت کا خاتمہ، تعلیم، صحت سب کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک غیر اہم مسئلہ پر ان چینلوں کے اینکروں کی اچھل کود دیدنی ہے۔دوران بحث ان کی بےتکی باتوں اور غیر ضروری سوالات پر غور کریں تو بہت جلد یہ اندازہ ہوجاتاہے کہ انہیں مسلمان عورتوں سے صحیح معنوں میں کتنا پریم ہے۔؟یہ صرف چندعورتوں کی بات کرتے ہیں جن کے ساتھ زیاتی ہوئی ہے،اور اسی کو بنیاد بناکر پورے دن چیختے چلاتے رہتے ہیں، مگر ملک بھر کی جو لاکھوں خواتین آج شریعت میں مداخلت کے خلاف سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہی ہیں انہیں یہ بھیڑ نظر نہیں آتی۔انہیں مسلم خواتین کی طرف سے جو دندان شکن جواب مل رہا ہے اس کی بات بھی وہ نہیں کرتے۔ان کے پاس تین طلاق دینے والوں کا نہ کوئی ڈیٹا ہے اور نہ کو ئی پختہ جانکاری۔جو بھی تھوڑی بہت معلومات ہیں وہ سب ہوا ہوائی ہے ،جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ۔ 
    • اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ بی جے پی کی حکومت کس کے اشارے پر چل رہی ہے اور اس انتہا پسند تنظیم کے کیا عزائم ہیں۔یہ کون نہیں جانتا کہ ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانا آر ایس ایس کا اہم ایجنڈہ ہےاور سنگھ کے لوگ اپنے اس مقصدسے وہ کبھی غافل نہیں ہوئے۔جب کبھی انہیں موقع ملا اس کا انہوںنے مکمل فائدہ اٹھایا، چاہے حکومت کسی کی بھی رہےآر ایس ایس کواپنےمنصوبے میں ناکامی بہت کم ہاتھ لگتی ہے۔ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کےمقصد کی تکمیل میں مہاتما گاندھی جیسے عدم تشدد کے علمبرادر شخص کوقتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔این ڈی اےحکومت دراصل آرایس ایس کی دین ہے اور وہ طلاق ثلاثہ کی آڑ میں حکومت سے دوسرا کھیل کھیلوانا چاہتی ہے۔اس لئے تین طلاق کے معاملے میں سپریم کورٹ میں حکومت کے ذریعہ مسلم پرسنل لا کی مخالفت کویکساں سول کوڈ کے نفاذ کی سمت میں پہلا قدم مانا جارہا ہے۔اوراب تو یہ عقدہ کھل بھی چکا ہے کہ جو خواتین اس مہم پیش پیش ہیں ان کا مذہب سے کتنا لگاؤ ہے۔
    • ایک سال قبل ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اسسٹنٹ جنرل سکریٹری و ترجمان جناب عبدالرحیم قریشی مرحوم نے اپنے ایک بیان میں یہ تحریک چلانے والی تنظیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ ’بھارتیہ مسلم مہیلا اندولن آرایس ایس کے اشارے پرکام کرتی اور کررہی ہے۔ اس کی سربراہ ذکیہ سومن قرآن وحدیث وشریعت سے ناواقف ہیں اور آرایس ایس کے اس ایجنڈہ پر کام کررہی ہیں کہ ملک میں مسلم پرسنل (شریعت) اپلی کیشن ایکٹ کو منسوخ کردیا جائے‘۔
    • اب ایک کے بعد ایک حکومت کے وزراء کی طرف سے جس طرح کے بیانات سامنے آرہے ہیں اس سے مطلع بالکل صاف ہوگیا ہے۔آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کےدلوںمیں عورتوں کے لئے بہت زیادہ پیار کاامنڈ آنابھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ تین طلاق کے مسئلے کی ایسی تشہیر کی جارہی ہےکہ جیسے اس پر روک لگتے ہی مسلم خواتین ایک دم سےخوشحال ہو جائیں گی اور ان کے تمام مسائل ایک ہی جھٹکے میں ختم ہو جائیں گے۔ ایسے ہی جیسے مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی ملک کے تمام مسائل ختم ہو گئے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ طلاق کی نوبت ایکدم سے پیش نہیں آتی ہے، بلکہ میاں بیوی میں اختلافات و انتشارجب عروج پر پہنچتے ہیں تب طلاق کا معاملہ سامنے آتا ہے،مگر جس طرح سے یہ مہم میڈیا کے توسط سے چلائی جا رہی ہے اس نے بھارت کے  ۲۵؍کروڑ مسلمانوں کو غورو فکر کا یہ موقع دیا ہےکہ شرعی امور میں حکومت کی مداخلت کا سد باب کس طرح سےکیا جائے۔مسلم پرسنل لا  بورڈ اور دیگر بڑی ملی تنظیموںمیں عبدالرحیم قریشی صاحب جیسے اہل علم و دانشوروں کوزیادہ سے زیادہ تعداد میں جوڑے جانے کی بھی اشد ضرورت ہے جو قرآن جانتے ہوں اور قانون بھی۔تاکہ میڈیا کے ذریعہ چلائے جارہے ہر سنگھی فتنے کاجواب استحکام ا ور مضبوطی سے دیا جا سکے۔جدیدحالات کے تحت مسلمانوں کے اتحادپر یہ کہنا قطعی غیر مناسب نہیں ہوگا کہ:
    • مؤذن مرحبا بروقت بولا
    • تری آواز مکے اور مدینے


    Comments

    Popular posts from this blog

    लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

    اب دلّی دورنہیں!

    کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا