maut par siyasat ka ghenowna khel


موت پر سیاست کا گھناؤنا کھیل


موت دوست کی ہو یا دشمن کی ،کوئی پتھر دل انسان ہی ہوگا جس کااس غمناک خبر کو سن کر کلیجہ منہ کو نہیں آتا ہو،مگر سیاست ایک ایسی منڈی ہے جہاں موت پر بھی سودے بازی ہوتی ہے۔ آج عالمی سطح پر بالخصوص عالم اسلام پر ایک اچٹتی نظریں ڈالیں توشاید ہی چند ممالک ایسے بچ جائیں جہاں  موت پر سیاست نہیں ہورہی ہو۔کرسی اور اقتدار کے حصول کے لئےجاری موت کے اس کھیل کا الگ الگ نام دیا گیاہے۔کوئی ظلم کے خلاف تو کوئی انتہاپسندی کے خلاف معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہاہے،یعنی دونوں طرف سے زندگی شکست کھارہی ہے ۔
بدقسمتی سے ہندوستان میںبھی یہ چلن بہت تیزی سے عام ہورہا ہے۔پہلے فرقہ وارنہ فسادات ہی نیتاؤں کو کرسی تک پہنچانےکے ذرائع اور اہم مدعے ہوا کرتے تھے جن کے سہارے برسوں تک حکمراں اور حزب اختلاف کے لیڈران اپنی اپنی سیاسی روٹیاںسینکتےتھے،اب جد ید دور میں جب  کہ سب کچھ بدل گیا ہےسیاست نے بھی اپنا پرانا چولا تبدیل کرلیا  ہے تو ایسا محسوس ہونے لگا ہےکہ جیسےموت پر گھناؤنا کھیل کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔سرحد پر فوجی کی موت، دلت کی موت،خواتین کی موت،بچوں کی موت،ہندو کی موت،مسلمان کی موت، دہشت گردوں کی موت ، بے گناہ  کی موت،قاتل کی موت ،ڈینگو اور چکن گنیاجیسے امراض کی زدمیں آکر عام لوگوںکی موت۔غور سے دیکھیں تو کشمیر سے کنیا کماری تک اس وقت ہندوستان میں مار دھاڑ اور موت پر ہی سیات کی بساط بچھی ہوئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہےکہ سیاست میں کامیابی کے آخری زینے تک پہنچنے کے لئے شاید یہ سب سےمؤثرو مفید طریقہ تصور کیا جاتا ہے۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ ۱۹؍ستمبر کوکشمیر کے قصبے اوڑی میںفوج کے ہیڈکوارٹر پر ہشت گردوں کے حملے میں ۲۰؍سے زائد سینکوں کی موت اوراس کے جواب میںٹھیک۱۰؍دنوں کے بعد۲۹؍ستمبر کو سرحد کے پار گھس کر سرجیکل اسٹرائک میں درجنوں دہشت گردوں کی موت،یہ سب سیاسی کھیل ہیںاور اس کے بل پر بی جے پی اتر پردیش ،پنجاب اور گوامیں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں زبر دست کامیابی کی دعوےدار بن گئی ہے۔ریاستوں کے سارے بنیادی مدعے اس  کے سامنے بونے پڑجائیں گےیا جذبات کی رو میں بہہ کر لوگ دوسرے ایشوز پر دھیان نہیں دیں گےاور قومی سلامتی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنے کا دعویٰ کرنےوالے بی جے پی کے لوگوں کے’ ان اموات‘ سے وارے نیارے ہوجائیں گے اور ان کی نیّا پار لگ جائے گی۔یہ خیالات اگر عام آدمی کے ہوتے تو اب تک اس پرنہ جانے کیا کیا مصیبتیں نازل ہو چکی ہوتیں اور کتنی دفعات لگ چکی ہوتیں۔خیرسے کوئی مسلمان ہوتا تو ان کی خیریت کے بھی بارہ بج چکے ہوتے،مگر ایساکہنے والی پارٹی کانگریس ہے جس نے ہندوستان پر سب سے زیادہ حکومت کی اور اس کے لیڈران یہ بات وثوق سے کہ رہے ہیں کہ ’سرجیکل اسٹرائک ‘کی آڑ میں بھاجپائی اپنی سیاست کوچمکانے میں ہمہ تن مصروف ہیں،ایک دوسرے کو بدھائی دے رہے ہیں۔غور سے دیکھیں تو صرف کانگریس کے نصف درجن سے زائد لیڈران جن میں راہل گاندھی،پی چدمبر،دگ وجے سنگھ،سنجے نروپم اورسندیپ سرجے والا جیسےچوٹی کے لیڈران اس آپریشن پر اپنی رائے دے چکے ہیں۔دوسری پارٹیوں کے ممتاز رہنماؤں کو شامل کرلیں تو ملک میںایسے لوگوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے جو چاہتے ہیں کہ چونکہ معاملہ قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے اس لئے’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے‘تاکہ کسی کے دل و دماغ شکوک و شبہات پیدا نہ ہو۔کوئی وزیر اعظم نریندر مودی پر خون کی دلالی کا تو کوئی الزام عائد کررہا ہے تو کوئی انہیں جنگ کا سوداگر بتارہا ہے۔دوسری طرف حکمراں جماعت کے لیڈران ایسے تبصرہ کرنے والے کانگریسوں کو بھی منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔زبان درازی کی اس جنگ میں ساری حدیں پار کی جا چکی ہیںاور بات رام زادے اور حرام زادے تک پہنچ چکی ہے۔
 یہ خیال رہےکہ موت کے اس کھیل میں بظاہر باہم دست و گریباں بی جےپی،کانگریس،سماج وادی پارٹی،بہوجن سماج وادی پارٹی،بہار میں آرجے ڈی اور جنتادل یونائٹیڈ،مہاراشٹر کی شیوسینا اور مہارشٹر نونرمان سینا،پنجاب کی اکالی دل کوئی کمزور نہیں ہے۔
بات موت پر سیاست کی ہوتو اترپردیش کے ’دادری‘ میں گزشتہ سال۲۸؍ ستمبر۲۰۱۵ کو بقرعید کے دن بیف کھانے کےالزام میںسرعام قتل کردیے گئے محمد اخلاق کی موت کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔اس سانحہ کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے ،کئی رپورٹیں آچکی ہیں جن میں یہ ثابت ہوچکاہےکہ گوشت بکرے کا تھا۔اس کے باوجود اتر پردیش میں انتہا پسندوں کے ایک ٹولہ کے سہارے اس بہیمانہ قتل کے مجرموں کو بچانے کےلئے مقتول محمد اخلاق کے اہل خانہ پر کیس درج کرکے ان کے بھائی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یوپی پولیس نے ایک بار پھر دہرایاہے کہ انہیں ابھی تک اخلاق کے خاندان کی طرف سے گائے کی قربانی کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہےاس لئےکسی کی گرفتاری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے،اگر ہمیں کوئی ثبوت  ملتاہے توہم ملزمان کو گرفتار کریں گے،جبکہ بی جے پی لیڈر سنجے رانا کاکہناہےکہ پولیس معاملے کو بند کرنے کی جلدی میں ہے۔
ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا بھی ہوا تھاکہ محمد اخلاق کے قتل کے الزام میں جیل میں بند اہم ملز روی کی موت ہوگئی۔پھر کیا تھاایک طوفان کھڑا ہوگیا اور اس کی موت پر بھی سیاست ہونے لگی اور معاصضہ دینے کی ہوڑ لگ گئی۔سماج وادی پارٹی نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے معاضے کی رقم میں اضافہ کردیا۔اتنا ہی نہیں کچھ لوگوں نے شہید قرار دیتے ہوئےگھر کے باہر رکھی اس کی لاش پر ترنگا بھی رکھ دیا توگھر والوں نے اپنی مانگیں پوری ہونے تک لاش کا انتم سنسکارکرنے سے انکار کر دیا ،ان  کی مانگ تھی کہ بیوہ کو سرکاری نوکری، خاندان کو ایک کروڑ کی امداد، اخلاق کے قتل کے الزام میں جیل میں بند۱۷؍ لوگوں کو رہا کیا جائے۔ریاستی حکومت کے خلاف چار دن سے احتجاج کر رہے گاؤں کے باشندوں اور ضلع انتظامیہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت روی کے اہل خانہ کو۲۰؍ لاکھ روپے، بیوہ کو نجی کمپنی میںنوکری، حکومت کی طرف سے بچوں کی پڑھائی کا خرچ اور جیلر کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی ۔تب جاکر محمداخلاق کے قاتل مرحوم ملزم روی کا انتم سنسکار کیاگیا،اس معاملےمیں بھی بی جے پی کے رہنما مہیش شرما اور مظفرنگر فسادا کے اہم ملزم ممبر اسمبلی سنگیت سوم نے اہم رول ادا کیا۔اب بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کو روی کی موت سے کتنا فائدہ ہوگا یہ تو آنے والے انتخابات میں پتہ چل سکےگا۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی میںسینئرسب ایڈیٹر ہیں۔)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in

 


Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا