آنسوؤں کے فرق کولوگ خوب سمجھتےہیں
آنسوؤں کے فرق کولوگ خوب سمجھتےہیں
ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
ایشوز سے کھیلنے کا ہنرجتنا ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی جانتے ہیں برصغیر کا شاید ہی کوئی سیاسی رہنمااس قدر ہنرمند ہو۔پوراملک اس وقت قطار میں ہے،یہ منظرنفسانفسی کا سما پیش کر رہا ہے،مصیبت ہےکہ کم ہونےکانام نہیں لے رہی ہے،کسی کا دل رورہا تو کوئی دکھاوےکےلیے رورہا ہےمگر آنسوؤںکے اس فرق کو تو لوگ خوب سمجھتے ہیں کہ قطار میں کئی روز سے کھڑی وہ عورت سچ بول رہی ہے جس کا بچہ بیمار ہے اور پیسے رہنے کے باوجودوہ اسے بچانہیں سکتی یاوہ سچ بول رہا ہے جس نے پورے ہندوستان کو سڑکوں پر لاکر کھڑا کردیاہے۔
۸؍نومبر سے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ پر پابندی کے بعد سے ملک کے حالات اس وجہ سے بد سے بدتر ہوتے جا رہےہیں ہ ہماراسسٹم جدیدتبدیلی سے ہم آہنگ نہیں ہے،نیتاؤں اور حکام کے ہزاردعوے کے باوجوداوپر سے نیچےتک پوراسرکاری نظام کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے،پھربھی ہم ملک سے بدعنوانی اور کالادھن کے خاتمہ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ملک کے لئے بدقسمی یہ ہےکہ اس کا حکمراں نہایت ہی چالاک،شاطر اورمکر و فریب میں یکتائے زمانہ ہے۔بےحس اتنا کہ اسے غریب عوام کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی،سنگین حالات میںوہ کان بند اور آنکھ موند لینے کا تجربہ بھی خوب رکھتاہے۔
حیرت کی بات یہ ہےکہ مرکزی حکومت کی پالیسیوںپر جس طرح سے چوطرفہ تنقیدیں ہو رہی ہیں اس کا کچھ بھی اثر اقتدارپر قابض رہنماؤںپر نظر نہیں آرہا ہے۔دلوں کے بھید تو خدا جانتا ہے، لیکن مودی حکومت کی اب تک کی کرکردگی سے صاف ظاہر ہےکہ ان کا مطمح نظر کیا ہے اوروہ ملک میں کیا انقلاب برپاکرناچاہتے ہیں؟۔
حواریوں کی زبان درازی،بھکتوں کی حوصلہ افزائی،پولیس کی غنڈہ گردی،میڈیا پر پابندی ،قیدیوں کا انکاؤنٹر،اپوزیشن کے رہنماؤں کی گرفتاری ،جے این یو سے پراسرار طور پر غائب ہوئے طالب علم نجیب کی ضعیف والدہ کے ساتھ ظلم و زیادتی،حکومت کی عدم توجہی کے سبب خودکشی کرنے والے سابق فوجی رام کشن گریوال کے اہل خانہ کے ساتھ بدسلوکی،کرپشن کے ساتھ دہشت گردی کو ختم کرکے اچھے دن لانےکے وعدے میں ناکام رہے وزیر اعظم سے سوالات پوچھنےوالوںکوسخت انتباہ ،طلاق ثلاثہ اوریکساں سول کوڈ کے نفاذ کا شوشہ۔ پے درپے وقوع پذیر ہونے والے واقعات یہ باورکرانے کیلئے کافی ہیں کہ کبھی آر ایس ایس کے سرگرم پرچارک رہےنریندر دامودر داس مودی کی قیادت میں بنی این ڈی اےکی حکومت میں صرف اقلیتی طبقے کے لوگ ہی بےچینی محسوس نہیں کر رہے ہیں، بلکہ سیاسی،سماجی،تعلیمی،اقتصادی اور کھیل و تفریحات جیسے شعبوں سے منسلک لوگ بھی پریشان ہیں۔
۲۰۱۴ء میں پارلیمانی انتخابات سے قبل نریندر مودی نےجو سبز باغ دکھائے تھےملک کے عوام کو اس حقیقت کو سمجھنے میں ڈھائی سال لگ گئے۔خیر سے بات سمجھ میں آگئی یہ بڑی بات ہے۔وزیر اعظم بننے کے بعدان کے سامنے دو بڑے چیلنج تھے۔ اپنے بلندو بانگ وعدوں کو پورا کرنا اور مذہبی تفریق کو ختم کرنا۔پہلے چیلنج سے عام لوگوںکی توقعات وابستہ تھیں اوردوسرے سے ہندوستان کا مستقبل۔ملک کی موجودہ صورت حال پر غور کریں تو دو،تین واقعات ہی اس سچائی کو واشگاف کرنے کیلئے کافی ہیں کہ ان محاذوں پر نریندرمودی کتنے کامیاب اور کتنے ناکام ثابت ہو رہے ہیں ۔
کشمیر کے حالات ہنوز کشیدہ ہیں، چار ماہ سےزائد کا عرصہ گزرجانے کے باوجود اس قضیہ کا اب تک کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔سرحد پر دشمنوں کی گولی کا نشانہ بن رہے جوانوں کی شہادت اوربھوپال کی سینٹرل جیل میں قید سیمی کے آٹھ ممبران کو انکاؤنٹر میں ہلاک کرنے کے بعدسوالات کے گھیرے میںپھنسی مودی حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ دہلی سے لےکر کشمیر اور کشمیر سے کنیاکماری تک کون سی ریاست بچی ہے جہاں کے لوگ سڑکوں پر کھڑے ہو کر اپنی بے بسی اور بے کسی کی داستاں بیان نہ کر رہے ہوں۔
مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے،سرحد پر شہید ہونے والے جوانوں کی تعدادروزبروز بڑھتی جارہی ہے،عام آدمی خوف و دہشت میں زندگی گزار رہا ہےپھر بھکت اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ مودی جی دشمنوں کو منھ توڑ جواب دے رہے ہیں۔در اصل دیش بھکتی اور سیکورٹی کے نام پر ٹکی مودی حکومت لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے۔ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کےلئے جھوٹ پر جھوٹ بولا جا رہا ہے۔نوبت بہ این جا رسید کہ بھکتوں کو اب یہ بات سمجھانے میں بڑی دشواری پیش آرہی ہے کہ واقعی’باغوں میں بہار ہے‘۔
جے این یو کے طالب علم نجیب کی گمشدگی کو ایک ماہ ہونے کو آئے، بوڑھی ماں دن بھر بے حس نیتاؤں کےدر پر چکر لگانے پر مجبور ہیں، مگر ان کی فریاد کوئی سننے والا نہیں ہے۔
سرحد پر وطن عزیز کی حفاظت کر رہے فوجیوں کی پریشانیاں بھی کم نہیں ہیں،امسال اب تک سو کے قریب جوان شہید ہو چکے ہیں، صرف ستمبرکے مہینے میں 24 جوانوں نےملک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان گنوائی ہے، ان ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے؟
غور کرنے کی بات یہ ہےکہ مختلف پریشانیوں میں گھرے دیش باسی اس امید میں تھے کہ چوطرفہ تنقید کے بعد ملک کے حکمراں کچھ سد بدھ لیں گے اور ان کی پریشانیاں کم ہوںگی،مہنگائی پر قابو پانے کیلئے کچھ اقدام کریں گے تاکہ حکومت کی کارکردگی پرانگلیاں کم اٹھیں۔لوگ ابھی اسی ادھیڑبن میں لگے ہوئےتھے کہ ۹؍نومبر کی شب ان پر ایک اور آفتاد آن پڑی۔اچانک وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم کے نام خصوصی خطاب میں پانچ سو اور ایک ہزارکے نوٹوں کی لین دین کو بند کرنے کا اعلان کرکے سب کو محو حیرت کردیا ۔بہ ظاہربدعنوانی،دہشت گردی کے خاتمہ اور کالے دھن کے خلاف اٹھائے گئے اس قدم سےلوگوں کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ بہار کے ضلع مدھے پورہ میں ایک نوجوان دن بھر اپنی ماں کا کفن خریدنے کیلئے بھٹکتا رہا، پیسہ ہونے کے باوجود کوئی بھی دوکاندار اس کو کفن دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔نوٹ بندی کے اعلان کے بعد سےاب تک تین درجن سے زائد موتیں ہو چک ہیں اور وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ غریب سکون سے سو رہا ہے،انہیں ملک میں پھیلی افراتفری نظر نہیں آرہی ہے۔
اس وقت ملک بھر میں ہزاروں شادیاں ہونی ہیں،کسان نئی فصل بونے اور پرانی کاٹنے میں مصروف ہیں،اس اعلان سے انہیں کس قدر اذیتوں کا سامنا ہےاس بات کا ’مودی کنبہ ‘کوئی اندازہ نہیں ہے۔اپوزیشن پارٹیاں بھی نے بھی اس فیصلے کی مخالفت میں متحد ہو چکی ہے۔کانگریس کے نائب صدرراہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں چل رہے سرمائی اجلاس سے قبل کہاتھاکہ مودی جی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انہیں ملک کے عوام کی فکر نہیں ہے۔ کسان، چھوٹے دکاندار اور گھریلو خواتین سب کے لئے افراتفری کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ جب کالے دھن پر بیٹھے لوگ غیرملک بھاگ گئے یا ریئل اسٹیٹ میں چلے گئے ہیں، تب مودی صاحب نے یہ قدم اٹھایا ہے، اس کے لئے ان کی تعریف کی جانی چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا ہےکہ ایک ہزار کی جگہ دو ہزار کا نوٹ جاری کر کے وہ کالے دھن پر کس طرح روک لگائیں گے۔؟سوالات بہت ہیں اور یہ پوچھنے والے اس سے بھی کہیں زیادہ کہ کیا واقعی ملک بدل رہا ہے،بھکتوں کے اچھے دن نہیں آچکے ہیں اور یہ سچ نہیں ہےکہ ملک سے غربت نہیں غریب ختم ہو رہے ہیں۔؟
Comments
Post a Comment