سب کی اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ
سب کی اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ
ڈاکٹرشہاب الدین ثاقب
’’ نوٹ بندی کے لئے حکومت کے پاس کوئی معقول وجہ ہونی چاہئے تھی جیسے سلامتی کا خطرہ یا پھر جنگ جیسی صورت حال،جب آپ کسی بھی لیگل ٹینڈر کو بند کرتے ہیں تو اس کے پیچھے صحیح وجہ اور مستحکم دلیل ہونی چاہئے اورعوام کے درمیان یہ پیغام جانا بھی ضروری ہے کہ نوٹ بندي سے انہیں کیا ملے گا، نیز اسے کیوں اور اسی وقت ہی کیوں کیا جا رہا ہے،نوٹ بندی کے پلان کو خفیہ رکھنے کا کوئی مطلب ہی نہیں تھا، ایمرجنسی کے حالات میں ایسا کیا جا سکتا تھا، لیکن اسے سرجیکل اسٹرائک کی طرح چھپا کر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، یہ وضاحت بھی ناگزیر تھی کہ ہفتہ، دو ہفتہ یا تین ہفتے میں ایسا کیا جائے گا، نوٹ بندي کے پلان کو اس طریقے سے نافذ کیا جانا چاہئے تھا کہ جس سے کالا دھن نہ رکھنے والے لوگ کم سے کم متاثر ہوں‘‘۔
مودی حکومت کے۸؍ نومبر کے نوٹ بندی کے فیصلےپرکئی سوالات کھڑے کرتے ہوئے مذکورہ خیالات کا اظہارجناب ومل جالان نے کیے ہیں جو ۱۹۹۷ء سے۲۰۰۳ء تک ریزرو بینک کے گورنر رہ چکے ہیں۔یہ بھی اتفاق ہےکہ اس وقت بھی مرکز میں این ڈی اے کی قیادت میں بھاریہ جنتا پارٹی کی سرکار تھی اور اٹل بہاری واجپئی وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان تھے۔
نوٹ بندی کے اعلان کے بعد وزیر اعظم نےملک سے ۵۰؍دنوں کی جو مہلت مانگی تھی و ہ ختم ہو چکی ہے،مگر حالات میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔پریشان لوگوں کو مطمئن کرنے کیلئے بڑے کرنسی نوٹ پر پابندی کے اعلان کے بعد مودی نے۳۱؍دسمبر کی شب قوم سے پہلا خطاب کیا، جس میں انھوں نے لوگوں کے صبر و تحمل پر شکریہ ادا کیا اور کچھ معمولی اعلان کیے جن میں حاملہ خواتین کو سرکاری امداد، غریبوں کے لیے مکان کی تعمیر، کسانوں کو قرض میں چھوٹ اور کم شرح سود پر قرض، معمر افراد کے لیے ا سکیمیں وغیرہ شامل ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہےکہ ملک کی معیشت میں جو روز بروز تنزلی آرہی ہےاس سے نکلنے کی کوئی تدبیر انہوں نے نہیں بتائی،البتہ یہ دعویٰ ضرور کیا کہ نوٹوں پر پابندی کے نتیجے میں دہشت گردی اور جعلی نوٹوں کا کاروبار کرنے کو کافی نقصان ہوا ہے،لیکن صنعت و تجارت کے شعبے سے وابستہ لوگ،چھوٹے کارو بار ی اور مزدور جن پرنوٹ بندی کی مار زیادہ پڑی ہے اور وہ شہروں کو چھوڑ کر گاؤں کا رخ کر رہے ہیں ان کو اس بحران سے نکالنے کے بارے میں کچھ ذکر نہیں کیا ۔
کیش لیس بینکوں اور اے ٹی ایم کے مسائل سے دوچار مودی حکومت نے گزشتہ ایام میں کئی اعلانات کیے ان میں ایک ڈیجیٹل لین دین پر انعامات کی بوچھار بھی ہے۔ اس اسکیم کے تحت روزانہ اور ہر ہفتہ ڈیجیٹل لین دین کرنے والے کسٹمرس کا انتخاب کیا جائے گا اورا نہیں زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے کا انعام دیا جائے گا ۔اللہ ہی بہتر جانتا ہےکہ مودی کے پالیسی سازوں کو اس کے بعد کتنی کامیابی ملےگی اور کیا یہ مسئلہ کا حل ہے۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کے سرمائی اجلاس اسی نوٹ بندی کے نظر ہوگئے،شور شرابےاور ہنگاموںکے سبب ایک روز بھی پارلیمنٹ نہیں چل سکی۔حالانکہ نوٹ بندی پر بی جے پی کے لوگ جس طرح سے متحد ہیں اپوزیشن یہاں بھی تتربتر ہےاور سب کی اپنی اپنی دفلی اپنا اپنا راگ ہے۔اس پورےقضیے میں ایک سچائی یہ بھی ہے کہ مودی حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف عام لوگوں نے کافی صبر و تحمل سے کام لیا۔اگر غور کریں تو یہ کم بڑی بات نہیں ہےکہ اتنی بڑی تعداد میں اموات ہونے کے باوجود حکومت کو کسی بڑی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔سبھی دکھ اور پریشانیوں کو جھیل رہے لوگوں کو امید ہے کہ نریندرمودی ہندوستان کو بدل رہے ہیں اور ملک سے کالادھن اور کرپشن کو ختم کرنے کیلئے انہوں نے جو جوکھم مول لیا ہے اس کی وجہ سے آنے والی دشواریاں وقتی ہیں،دھیرے دھیرے حالات نارمل ہو جائیں گے۔لوگوں کا یہی تحمل اور برداشت مودی کے حوصلے کو بلند کیے ہوئے ہےجس کی وجہ سےساری مخالفتیں ایک طرف اور مودی کنبہ کافیصلہ ایک طرف۔ان کی بھکتوںکو مودی کی ایمانداری پر سوال اٹھانے والوں کی ایمانداری پر شک ہے۔۔
یہ بھی سچ ہےکہ۱۳؍نومبر کو جب نریندر مودی کی آنکھیں چھلکیں تو ٹی وی چینلوں کے اسکرین پرسب نے دیکھا مگراس کے بعد سے کرنسی نوٹ کے لئے پوار ملک رورہا ہے اور قطار میں کھڑاہےجن کی پر واکسی کو نہیں ہے۔ اب تک سو سے زائد افراد اس نوٹ بندی کی نذر ہو چکےہیں،ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟۔افسوس کی بات یہ ہےکہ نہ ہی نریندرمودی کی اور نہ ہی حکمراں جماعت کے کسی لیڈر کی آنکھیں ان اموات پر نم نہیں ہو ئیں ہیں۔اس کے برعکس بی جے پی کے کئی لیڈروں نے تو اپنے خون و پسینہ کی کمائی کو حاصل کرنے کے لئے قطار میں لگے لوگوں کا مذاق اڑایا ہے اور نوٹ بندی کے سبب مختلف وجوہات سے ہونے والی اموات کو بھی جھٹلادیا ہے۔تازہ مثال مرکزی وزیر کرشنا راج کی ہے جن کا خیال ہے کہ نوٹ بندی سے کسی کی جان نہیں جا رہی ہے۔ان کا کہناہےکہ جان ایسے لوگوں کی جا رہی ہے جو ۷۰؍سالوںسے کھا رہے تھے، لوٹ رہے تھے۔
قابل غور ہےکہ نوٹ کی مار سےلوگوں کو جوپریشانیاں ہو رہی ہیں اس سے بچنے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے وزرا یہ اپیل کر رہے ہیں کہ ہمیں کیش لیس سوسائٹی کی طرف بڑھنا چاہیے،لیکن یہ نہ تو اتنا آسان ہے اور نہ ہی اتنا محفوظ ہیں۔کیوںکہ ماہرین بتاتے ہیں کہ آن لائن بینکنگ کے بہت سے خطرات ہیں اورسائبر کرائم کا شکار ہو جانے کے بعد روپے کی واپسی کی امید بھی نہیں رہتی ہے اور بینک بھی پلہ جھاڑ لیتا ہے، دوسرے یہ کہ کوئی ایسا سسٹم نہیں ہے جہاں سے متاثرین کو راحت مل سکے ۔ اس کے علاوہ ملک بھرمیں فی الحال ۴۰؍ کروڑ بینک کھاتے ہیں، ان میں جن دھن اکاؤنٹس بھی شامل ہیں، لیکن قریب 23فیصد جن دھن اکاؤنٹ اب بھی ایسے ہیں جن میں ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔اس لئےکیش لیس سوسائٹی کا قیام کیسے ممکن ہے۔
دوسری طرف عام آدمی کو گھنٹوں لائن میں لگنے کے باوجود پیسے نہیں مل پاتے جبکہ انہیں بینکوں سے کالے دھن کو سفید کرنے کا کھیل چل رہا ہے اورکروڑوں روپے ان ہاتھوں میں پہنچ چکے ہیں جن کے خاتمہ کا خواب دیکھا گیا تھا۔کیونکہ پانچ سو اور ہزار کے نوٹ بند ہونے سے۱۵ء۴۴؍لاکھ کروڑ روپے کی جوکرنسی بند ہو گئی تھی وہ سرکولیشن میں موجود کل روپیوں کا ۸۶؍ فیصد تھی، جس میں سے۱۲ء۴۴؍ لاکھ کروڑ روپے مختلف بینکوں میں جمع کروائے جا چکے ہیں، (یہ اعداد و شمار۱۰؍ دسمبر تک کے ہیں) یعنی اب۳؍ لاکھ کروڑ روپے آنے باقی ہیں،اس کے باوجود عام آدمی کی پہنچ نئی کرنسی نوٹ تک نہیں ہو سکی ہے۔
http://epaper.inquilab.com/epaper/05-jan-2017-3-edition-Delhi-Page-9.html
Comments
Post a Comment