عدم توجہی سے مسائل ختم نہیں ہوتے
ڈاکٹرشہاب الدین ثاقب
ہندوستان کی صف اول کی جامعات میںسے ایک جواہر لال نہرویونیورسٹی( جے این یو) جو کہ اپنی متعدد خوبیوں کے سبب پوری دنیا میںمشہور ہے کے ایم ایس سی بائیوٹیکنالوجی سال اول کے طالب علم نجیب احمد کی پراسرارگمشدگی کو پانچ ماہ ہوگئے۔اتنی مدت بعدبھی دہلی پولیس یوپی کے ضلع بدایوں سے تعلق رکھنے والے نجیب احمد کا کوئی سراغ نہیں لگا سکی ہے ۔دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے بار بار پھٹکارلگنے کے باوجود پولیس کوئی سدھ بد نہیں لے رہی ہے جس کی وجہ سے عدالت نے ۱۶؍مارچ ۲۰۱۷ءکو ایک بار پھر کو دہلی پولیس سے کہا کہ وہ عوام کا پیسہ برباد کرنے کے بجائے نجیب کو تلاش کرنے کی کوشش کریں،ہمیں اس معاملہ میں جلد سے جلد سے نتیجہ چاہئے ،اب معاملہ کی اگلی سماعت 10 اپریل کو ہوگی ۔
۲۷سالہ طالب علم نجیب کی جے این یو کےمانڈوی ہاسٹل میںبی جے پی کی طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد( اے بی وی پی) کے چند ممبران کے ساتھ کہا سنی ہوگئی تھی جس کے بعد۱۵؍ اکتوبر۲۰۱۶ء سے وہ غائب ہے۔ہوسٹل سے اچانک وہ کہاں لاپتہ ہوگئے کہ کسی کو کچھ خبر نہیں ہوئی،ان کے روم پارٹنرکو بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ جو چند منٹ قبل تک ان کے ساتھ تھے۔ اس پراسراوقعہ کے بعد سے ہی نجیب کی بازیابی کے لئے ملک بھرمیں مسلسل احتجاج ہو رہے ہیں، مگرمرکزکی بی جے پی حکومت اور دہلی پولیس پراس کا کوئی اثر نہیں ہے۔دنیا بھر میں اپنی تقریروں اور نت نئے جملوں کے سبب منفرد شناخت حاصل کرچکے وزیر اعظم نریندرمودی،ان کی تیس مار خاں بٹالین اور دہلی کی پولیس کی نظر میںایک ضعیف ماں کے آنسو،عزیزو اقارب کے درد،بھائی بہن کی آہیں اور سسکیاں،ملک بھر کے طلبہ برادری کی بےچیناں اور متفکر نوجوانوں کی پریشانیاں کوئی مول نہیں رکھتیں۔اس وقت ہندوستان کا شاید ہی کوئی شہر ایسا بچا ہو جہاں نجیب احمد کی واپسی کی جنگ نہیں لڑی جا رہی ہو۔کئی طالب علم تنظیمیں دہلی سمیت پورے ہندوستان میں نجیب کے لئے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں۔یہ اس بات کا بین ثبوت ہےکہ ہمارا معاشرہ ابھی اتنا بے حس نہیں ہوا ہےکہ جتناحکومت سمجھ رہی ہےاور اتنے سنگین مسئلہ سے آنکھ بند کیے ہوئے ہے جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔برسراقتدار لیڈروںکیلئے ان احتجاجوں کو نظر انداز کرنا بہت مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔جموںو کشمیر میں ہم نے دیکھ لیا ہےکہ ریاست میں اپنی آوازبلندکرنےوالے نوجوانوں اور عام لوگوں کے مسائل سے عدم توجہی نے ریاستی اور مرکزی حکومت کےلئے کتنی مشکلات کھڑی کردی ہیں،شاید انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے۔اب تو کشمیری رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیکولرجماعتوں کے چوٹی کے لیڈران بھی کھل کر مودی حکومت کی پالیسی کو خطرناک اور ملک کی سالمیت کے لئے مضر قراردے رہے ہیں۔پہلےجموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ انتہا پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے والے کشمیری نوجوان قوم کی آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں،وہ قربانی اس لئے دے رہے ہیں کہ انہیں اپنا حق چاہیے،ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ نوجوان نکل گئے ہیں، ہر ایک کو اپنی زندگی عزیز ہوتی ہے، کوئی مرنا نہیں چاہتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی ملک نے کشمیریوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔یہ باتیں اگر حریت پسندوں نے کہی ہوتیں تو شاید میڈیامیں اتنی ہلچل نہیں ہوتی مگر یہ بیان ایک ایسے ہندوستان نواز لیڈرکے طرف سے آیا ہے جن کے خاندان کی ہندوستان کے لئے وفاداری پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ جیسے سینئر قومی رہنماکی ریاست اور ملک کے لئے بیتابی اور مرکز کی طرف سے عدم توجہی کوبخوبی محسوس کیاجاسکتا ہے اور یہی ہوا۔ٹھیک ایک روز بعد سابق وزیر داخلہ اور کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نےبھی اپنے ایک بیان میں کہاکہ مجھے بہت افسو س کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہندوستان کشمیر کو کھو چکا ہے، مرکز کی مودی حکومت وادی میں عدم اطمینان کو دبانے کے لئے طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مرکزی حکومت اپنی طرف سے کچھ اصلاحی قدم نہیں اٹھاتی ہے تو مجھے یہ ڈر ہے کہ کشمیر میں صورتحال مزید بدتر ہوجائے گی ۔ ان کا خیال ہےکہ وادی کے۷؍ ملین افراد ہندوستانی حکومت کے جابرانہ طریقوں سے خود کو الگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں جو ایک خوفناک غلطی ہے ۔
ناانصافی اور ظلم و زیاتی کے خلاف اٹھنے والی یہ وہ آواز ہےجسے مرکزمیں آرایس ایس کے سہارے اقتدار کی کرسی پر پر قابض ہونے والی پارٹی بی جے پی اور اس کےلیڈران دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔عوامی سطح پر تو دعوے اور وعدوں کی بوچھار ہے مگر سچائی یہ ہےکہ ایک طالب علم چارماہ سے سینٹرل یونیور سٹی سے غائب ہے اس کی ایک جھلک پانے کےلئے ان کے ساتھی طلبہ اور ملک کا نوجوان طبقہ سڑکوں پر اتر کر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے پھر بھی نجیب احمد کا کوئی اتاپتا نہیں چل سکاہے۔نوجوانوں کی بے چینی اور بےتابی اس لئے بڑھ رہی ہےکہ ملک کا ’مکھیا‘ بڑی بڑی ڈینگیں ہانک رہا ہے ،ریاستی انتخابات میں گھوم گھوم کر لوگوں سے چاندتاروں کو توڑکرانہیں تھمادینے کی باتیں کر رہا ہے، اور باتوں کا یہ بازیگر ایسے ایسے وعدے کررہا ہے جیسے اس کے ہاتھ جادو کی کوئی چھری لگ گئی ہوکہ ادھر گھمایا اور ادھر مرادیں پوری۔
دوسری طرف ملک کے مسائل ہیں جو بڑھتے ہی ج رہے ہیں۔جن وعدوں کو بنیاد بنا کر انہوں نے نوٹ بندی جیسا اہم فیصلہ لیاوہ سب کے سب ٹائیں ٹائیں فش ثابت ہوئے ۔نہ تو کالادھن نکلا،نہ سرحد پر دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی اور
نہ ہی نقلی نوٹوں پر قدغن لگا۔
نجیب کے مسئلہ پر بھی پولیس کی جانب سے لاکھ دعوے کئےجا رہےہیں، لیکن حقیقت یہ ہےکہ پولیس پہلے دن سے ہی معاملہ کو دبانے میں لگی ہے اوران کی تلاش صحیح سمت میں کرنے کے بجائے غلط رخ پرکی جا رہی ہے ۔پولیس کی نیت پر سوال اس لئے کھڑے کیے جا رہے ہیں کہ خود نجیب کی والدہ نے یہ اعتراف کیاہےکہ پولیس نے دھوکے سے گمشدگی کی ایف آئی آر پر دستخط کرالیا ہے کیوں کہ پولیس کے من میں کھونٹ ہے وہ نجیب کےحملہ آور اے بی وی پی کے کارکنوں کوسزا دلانے کے بجائے انہیں بچانےکی کوشش کر رہی ہے۔بات نجیب کے گنہگاروں کی ہو، جےاین یو کی ہو یا ڈی یو سمیت ہندوستان کی دیگر یونیورسیٹیوں میں بھگوا فکر کو استحکام بخشنے کی۔حب الوطنی کے نام پر منظم طریقے سے اے بی وی پی کو تعلیمی اداروں میں داخل کرکے انہیں کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔یہی وجہ ہےکہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعدسے مسلسل تعلیمی اداروں میں اے بی وی پی کی غنڈہ گردی کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔جو لوگ ہندتو اور آرایس ایس کے نظریات کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ملک دشمن، ماؤ نواز اور جہادی جیسے نام دیے جاتے ہیں۔
تازہ معاملہ دہلی یونیورسٹی کے رام جس کالج کا ہے جہاں اکھل بھارتیہ ودھیارتھی پریشد کے اعتراض کے بعد ایک اہم سیمینار کو منسوخ کر دینا پڑا۔اس سے قبل ایک کالج نے اے بی وی پی کے نوٹس کے بعد ڈرامے کا ایک فیسٹیول منسوخ کر دیا۔ کچھ دنوں پہلے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی ایک پروفیسر کو ایک پروگرام میں دعوت دینے پر ایک دوسری یونیورسٹی کے کئی اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا۔یہ سب کیا ہے؟دراصل یہ وہ سازش ہے جس کے تحت قوم پرستی کے نام پر ہندوستان میں حق و انصاف کی آواز کودبا کر ایک مخصو ص فکر و نظریہ کوتھوپنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
This article should also be moved to other languages
ReplyDelete