Media, Muslims and problems

 میڈیا مسلمان اور مسائل۔۔۔

ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
موجودہ اکیسویں صدی میں میں ذرائع ابلاغ ہر سماج کی ضرورت ہے،اس سے انکار کی قعطی گنجائش نہیں ہے۔ سماج پر میڈیا کے اثرات کا ہی نتیجہ ہی کہ ہے ایک سماجی کارکن انا ہزارے سے گاندھی اور ایک سماجی کارکن سی ایم کی کرسی پر براجمان ہو جاتا ہے اور کوئی سی ایم سے پی ایم بن جاتا ہے۔ میڈیا کا رول یہاں پر بھی اہم ہوتا ہے کہ کبھی خواب میں بھی جیل نہیں دیکھنے والے سادھو سنت اپنے سیاہ کارناموں کی بدولت حقیقی جیل کا درشن کرلیتے ہیں اور ان کے پاپ کا محل پل بھر میں مسمار کردیا جاتا ہے۔یعنی سماج کے ہر مسلے پر میڈیا کی نظر ہوتی ہے ۔خاص طور پراس دور میں ذرائع ابلاغ سے بچ کر نکل جانا آسان نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سیاست اور سماج کے بڑے بڑے تیس مار خاں پلک جھپکتے اپنی اوقات پر آجاتے ہیں اور جٹ اپنے کیے کی معافی مانگنے میں ہی بھلائی محسوس کر تے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا میڈیا کی نظر سب کے لئے یکساں ہےیا الگ الگ؟اس مقالے میں ہم نے اسی مسئلے پر زیادہ توجہ دی ہے۔اور میڈیا کے اس چہرے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
 سماج کا چوتھا ستون کہے جانے والاشعبہ آج جن ہاتھوں میں پھل پھول رہا ہے،یا  اس پر جن افراد کا کنٹرول ہے وہ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے کس درجہ سنجیدہ ہے،اور ان کے دلوں میںمسلمانوں کے لئے کتنی جگہ ہے۔ میڈیا ہندوستان میں اقلیتوں کے لئے معاون ہے یا مخالف،نیزپوری دنیا میں مذہب اسلام کے فروغ کو لے کر رحمت ہے یا زحمت اور مسلمانوں کا نام روشن کرنے میں میڈیا کا رول اہم ہے یاامت محمدیہ کو بدنام کرنے میںوہ پیش پیش ہے۔ان موضوعات پرسیاسی،علمی اور ملی حلقوں میں سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی ہے۔اور جب بھی حالات حاضرہ کے مسائل پر بات ہوگی تو اس میں ذرائع ابلاغ کے کرادر پر ضرور بحث ہوگی۔
راقم الحروف کا چونکہ ہندوستان میں پرنٹ میڈیا کے سب سے بڑے گروپ سے تعلق ہے اس لئےمیڈیا  کی متعصبانہ ذہنیت کا ر بارہا اپنے مضمون میں کیا ہے۔ ان واقعات کو بہت ہی قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کے بعد مقالہ نگار یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اس دور میں حقیقت پسندی کا نہیں مصلحت پسندی کا نام ہے میڈیا۔صحافت کا مطلب حق گوئی نہیں حالات سے سمجھوتہ ہے۔
اس تلخ سچائی کے پیچھے جو راز پنہا ہے اس کا جاننا ازحد ضروری ہے۔میڈیاکا مصلحت پسندانہ رویہ اس کی ضرورت ہے یا مجبوری۔سازش ہے یاحقیقت اسے سمجھنے کیلئے سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ عالمی اور ملکی ذرائع ابلاغ پر کس کا کنٹرول ہے ۔ موجودہ عہد میں ذرائع ابلاغ کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا ہے۔اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ وغیرہ جوذرائع ابلاع کے اہم ستون ہیں، ان کے علاوہ ای میل، ٹویٹر، اسکائپ اور فیس بک  کے توسط سے بھی اپنا پیغام اور اپنی بات دوسروں تک آسانی سے پہنچائی جا رہی ہے،مگران پر کن لوگوںکا اختیار ہے اور اس سے انہیں کیا مل رہا ہے یہ جاننا اپنے آپ میں کافی اہم ہے۔
میڈیا کے حوالے سے آج والٹ ڈزنی کمپنی دنیا کا سب سے بڑے ادارہ میں شمار ہوتا ہے، اس کے چیف ایگزیکٹو ایک یہودی مائیکل آئزنر ہیں۔ ٹائم وارنر عالمی میڈیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کا سی ای او اور چیئرمین آف دی بورڈ گراؤنڈ لیون بھی ایک یہودی ہے۔ وایا کام امریکی میگا میڈیا کی تیسری بڑی کمپنی ہے جس کا سربراہ بھی ایک یہودی ریڈ سٹون ہے۔ وایا کام کا سالانہ ریونیو 10 ارب ڈالر سے زائد ہوتا ہے اس کے 12 ٹی وی چینل اور 12 ریڈیو سٹیشن ہیں۔ امریکا کے سب سے بڑے تین اخبارات نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور وال ا سٹریٹ جرنل ہیں۔ یہ تین اخبارات ہیں جو امریکا کے معاشی اور سیاسی ایوانوں پر بھی غلبہ حاصل کئے ہوئے ہیں اور تقریباً تمام دیگر اخبارات رسائل وجرائد کے لئے رحجان اور گائیڈ لائینز فراہم کرتے ہیں۔ یہی تین اخبارات یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سی خبر قومی ہے اور کون سی عالمی اور یہ تینوں اخبارات یہودیوں کے ہیں۔

 :عالمی میڈیا کے 90 فیصد حصے پر یہودی قابض

گزشتہ دنوں ’’عالمی میڈیا پر کنٹرول کس کا‘‘ کے عنوان سے ایک سروے سامنے آیا جس میں دنیا بھر میںذرائع ابلاغ پر براہ راست کنٹرول کرنے والی کمپنیوں اور ان کے مالکان کے بارے میں تفصیلات تھیں۔اس رپورٹ کے اعدادو شمار چونکانے والے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عالمی میڈیا کے 90 فیصد حصے پر اس وقت یہودی قابض ہیں جس میں خبررساں ادارے، اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، بین الاقوامی سطح کے جرائد کی ملکیت یہودیوں کے پاس ہے اور یہ ادارے دنیا بھر کو مواد فراہم کراتے ہیں۔
 دنیا کے 90 فیصد میڈیا پر صرف 6 کمپنیوں کی اجارہ داری ہے اور یہ سبھی کمپنیاں یہودیوں کی ہیں،یہ لوگ نہ صرف میڈیا کو کنٹرول کر رہے ہیں، بلکہ انسانی ذہنوں کو تبدیل کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔
چوتھی کمپنی نیوز کارپوریشن ہے جس کی ملکیت فاکس ٹی وی چینل ہے۔ یہ چینل اپنی رائے اپنے ناظرین پر تھوپنے کاکام انجام دیتا ہے۔ ڈریم ورکس یہ میڈیا کمپنی یہودیوں کی بالادستی کو دکھانے کا کام کرتی ہے، ایک امریکی فلم ساز میل گبسن نے گزشتہ دنوں ایک فلم’ پیشن آف دی کرائسٹ‘ بنائی تھی جس میں اُس نے یہودیوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تھی، اُس فلم کے خلاف یہودیوں نے مورچہ کھول دیا اور اب وہ پردے سے غائب ہو چکا ہے۔
پرنٹ میڈیا کا عالم یہ ہے کہ امریکہ میں 90 فیصد اشاعتی ادارے یہودی چلا رہے ہیں۔ روزانہ 6 کروڑ اخبارات فروخت ہوتے ہیں، جس میں 75 فیصد حصہ یہودیوں کا ہے۔ امریکہ کے تین بڑے اخبار نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ  کے بارے میں ہم بتا چکے ہیں کہ یہ تینوں یہودیوں کی ملکیت  ہیں۔یہ وہ ادارے ہیں جن سے دنیا بھر کی میڈیا انڈسٹری بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر وابستہ ہے۔ اور اِس طرح یہ لوگ پوری دنیا کی میڈیا پر براہ راست قابض ہو چکے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے پاس یہودیوں سے۱۰؍ گناہ زیادہ دولت ہے، لیکن مسلمان صرف شاہانہ زندگی بسر کرنے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔
 سب سے اونچا کلاک ٹاور، مشرق وسطیٰ کا سب  سے بڑا ہوٹل سعودی عرب میں ہے، سب سے اونچی عمارت برج خلیفہ دوبئی میں ہے اور یہیں پر سب سے بڑا ۷؍ کلو میٹر لمبا شاپنگ مال بھی تعمیر ہو رہا ہے۔ گویا ان چیزوں پر دولت کی بربادی ہو رہی ہے جبکہ ایک چھوٹی سی قوم رات دن اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف عمل ہے۔(اردو ٹائمز نیویارک،اشاعت ۱۱ نومبر ۲۰۱۴)
ان حقائق کے بعد یہ جاننا مشکل نہیں کہ دنیا بھر میں مسلم ممالک کو مشکلات میں ڈالنے والے کون ہیں، لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ دنیا کی کل آبادی کے ایک چوتھائی پر مشتمل 56 مسلم ممالک کے سربراہ آج تک اس کا توڑ نہیں پیش کر سکے نہ اس کے بارے میں کوئی، مشترکہ حکمت عملی ہی تیار کر سکے ہیں۔   

: ہندوستانی میڈیا کا طرزعمل 

وطن عزیز ہندوستان میں بھی ذرائع ابلاغ کا کردار مثالی نہیںہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں بھی میڈیا  پرکارپوریٹ گھرانوں کا قبضہ ہے۔یہاں کے میڈیا ادارے بھی یہودی طرز پر کام انجام دے رہے ہیں۔اور وہ ان خبروں اور تجزیوں پرزیادہ زور دیتے ہیں جن سے ان کا کاروربار پھلتا پھولتا ہے۔یعنی صنعت و تجارت کا فروغ اور انٹر ٹینمنٹ ہی ان کا اصل مقصد ہے،مگر اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ذرائع ابلاغ مخصوص نظریات کی بھر پور حمایت اور تبلیغ بھی کرتے ہیں اور ایسا کرنا ان کی مجبوری ہے چونکہ حکومت اورملک کے اکثریتی طبقے کوخوش کیے بغیر ان کی بزنس نہیں چل سکتی۔بھارت کا میڈیا بھی یہاں کی سب سے بڑی اقلیت کو نظر انداز کرکے سماج کی تعمیرکم تخریب کاری کاکام زیادہ کر رہا ہے۔
اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں مگر ہم یہاں پر صرف تین مثالیں پیش کریں گے چونکہ یہ دنوں واقعات بالکل قریب کے ہیں۔دسمبر ۲۰۱۴ کے آخری ہفتہ میں تین اہم واقعات پیش آئے جس پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔لیکن افسوس کےمیڈیا نے خاص توجہ اس لئے نہیں دی کہ کہیں نہ کہیں ان دنوں کا تعلق ایک ہی قوم سے ہے اگر معاملہ برعکس ہوتا تو پھرکئی ہفتوں تک تل کا تار بنایا جاتا۔

:پہلا واقعہ

    پہلا واقعہ  ۲۶ دسمبر ۲۰۱۴ کا ہے۔دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین کے نام سے راجستھان حکومت کے 15 وزراء کو مبینہ طور پر دھمکی بھرا ای میل ملا ، یہ ای میل 22 دسمبر کی شام کو وزراء کو بھیجا گیا تھا۔
راجستھان پولیس کےمطابق اس دھمکی بھرے ای میل میں لکھا  تھاکہ ’آپ خود سمجھ جاؤ، ہم کیا کریں گے؟ ۔یہ میل کس نے بھیجے ہیں، اس بارے میں فی الحال کچھ بھی کہنا جلد بازی ہے۔معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔ پولیس ڈائریکٹر جنرل کے مطابق کابینہ کے ارکان کو یہ ای میل گزشتہ دنوں ان سرکاری ای میل کی شناخت پر ملے ہیں، یہ دھمکی بھرے ای میل انڈین مجاہدین کی طرف سے بھیجنا بتایا جا رہا ہے۔ 
 جس دن یہ خبر آئی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ایک بھونچال آگیا اور بڑی اہمیت کے ساتھ یہ خبر دیکھائی اور شائع کی گیں۔ہندی کےچند مشہور اخبارات کی سرخیاں اس طرح تھیں۔  
’وسندھرا کے 16 وزراء کو IM کی دھمکی’بم دھماکے کریں گے، روک سکتے ہو تو روک لو‘(اے بی پی نیوز)
راجستھان حکومت کے وزراء کو دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین (آئی ایم) کی دھمکی، 26 جنوری کو دھماکے کریں گے۔(دینک ٹریبیون اون لائن)
راجستھان کے وزیر داخلہ سمیت 15 وزراء کو دھمکی بھرے ای میل(ذی نیوز)
راجستھان کے 10 وزراء کو دھماکے کی دھمکی والے ای میل(پتریکا)
راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چندد کٹاریہ سمیت 16 وزراء کو دھمکی بھرا ای میل(آج تک)
راجستھان کے 15 وزراء کو آئی ایم کی دھمکی(ہندوستان)
راجستھان کے وزراء کو مبینہ طور سے آئی ایم کے دھمکی بھرے ای میل(این ڈی ٹی وی)
دلچسپ بات یہ ہے کہ۲۹؍دسمبر۲۰۱۴ کو دھمکی بھرا امیل بھیجنے والا گرفتار ہوگیا، بدقسمی سے یہ ۳۴؍ سالہ سشیل چودھری نکلا۔تب اے ٹی ایس کے ذرائع نے بتایا کہ گرفتارشخص سے کی گئی پوچھ گچھ میں سامنے آیا ہے کہ اس نے بے روزگاری سے تنگ آ کر ایک سائبر کیفے سے یہ ای میل بھیجے تھے۔پولیس کو ملزم چودھری کے ذہنی طور پربیمار ہونے کی بھی اطلاع ملی۔
اے ٹی ایس کے ذرائع کے مطابق سشیل چودھری نے انڈین مجاہدین کے نام سے ایک فرضی ای میل آئی ڈی بنائی اور اسی کے ذریعہ اس نے راجستھان کے ۱۰؍ کابینی وزراء اور ۶؍ وزارئے مملکت کو ای میل بھیجا تھا۔ان وزیروں کو ان کے سرکاری ای میل ایڈریس پر میل بھیجا گیا تھا۔ میل بھیجے گئے وزیروں میں ریاست کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریا اور سماجی انصاف اور وزیر ارون چترویدی بھی شامل تھے۔
بات آئی اور گئی ہو گئی، سشیل چودھری کی گرفتاری کو میڈیا نے وہ جگہ نہیں دی جو پہلے دن دھمکی آمیز  خبر کو دی تھی۔بعض اخبار نے اس خبر پر نظر عنایت کی بھی تو ایسی جگہ پر اسے شائع کیا کہ تلاش بیسیار کے بعد وہاں تک رسائی ممکن پاتی۔ تھوڑی دیر کے لئےٹھنڈے دل سے غور کیجیے، اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو کیا یہ اتنا معمولی واقعہ تھا کہ حکومتی ایجنسیاں اسے یوںہی  نظر انداز کردیتی۔ آئی ایم  ہندوستان میں ایک ان بجھ پہیلی ہے اس کے باوجودہرملک مخالف واقعہ اور دھمکی آمیز خطوط کے بعد سب سے پہلے اسی کا نام آتا ہے اور تفیش کے نام پر کئی مسلم نوجوان پکڑلیے جاتے ہیں۔اور اس نوجوان اور اس کے اہل خانہ سے اپنے پرائے سبھی رشتہ ناطہ جلدی جلدی ختم کرنے کی تدبیرں اپنا نی شروع کردیتے ہیں۔گھروالوں کو اس کے بعد سے جو پریشانیاں ہوتی ہیں اس کا اندازہ ہم لوگوں کو ہے۔ 

:دوسرا واقعہ

دوسرے واقعہ کا تعلق ہندوستان کی سب سے بڑی ہندوتوا کی حامی تنظیم آر ایس ایس سے ہے۔اس تنظیم  کی حب الوطنی میں پوشیدہ دہشت گردی ایک بار پھر اس وقت بے نقاب ہو گئی جب امریکہ کے ایک تھنک ٹینک نے دنیا کی بڑی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں اسے بھی شامل کر لیا۔امریکہ کیتھنک ٹینک آبزرو ، اورینٹ ، ڈیسائیڈ اینڈ ایکٹ (او ۔او ۔ ڈی ۔اے )نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے ۔امریکی تھنک ٹینک کی ویب سائٹ ’ٹیررزم ڈاٹ کوم ‘کے تھریٹ گروپ پروفائل میں آر ایس ایس کے نام کو شامل کیا گیا ہے ۔امریکی تھنک ٹینک کے مطابق آر ایس ایس ایک جانبدار اور مشکوک تنظیم ہے جو کہ ہندو راشٹر قائم کرنے کے لیے گزشتہ ۱۹۲۵؍ سے پورے جوش و خروش کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔
آپ کو بتا دیں کہ او ۔او۔ ڈی۔ اے۔ امریکہ کی فوجی تنظیم ہے جو دہشت گردی اور دوسرے معاملات میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔یہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شامل اس طرح کی تنظیموں سے مقابلہ آرائی کرنے کے لیے لائحہ عمل مرتب کرتی ہے ۔امریکہ کے اس تھنک ٹینک نے آر ایس ایس کے سلسلہ میں پوری ایک ریسرچ پیش کی ہے ۔آر ایس ایس کا قیام کیوں اور کیسے ہوا اور اس کا ایجنڈا کیا ہے ۔آر ایس ایس کی دیگر ذیلی تنظیموں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کا بھی ذکر ہے۔امریکی تھنک ٹینک نے آر ایس ایس کو بی جے پی کی مدر آرگنائزیشن قرار دیا ہے ۔نیز بی جے پی کو ہندو نیشنلسٹ پارٹی قرار دیا ہے اور آر ایس ایس کو ہندو نیشنلسٹ تحریک بتایا ہے ۔امریکی تھنک ٹینک نے بتایا ہے کہ ۱۹۲۵ء میں قائم ہونے والی آر ایس ایس تنظیم کی فلاسفی ہندوتوا کو فروغ دینا ہے ۔امریکی تھنک ٹینک کے مطابق آر ایس ایس کو یہ پسند نہیں ہے کہ مسلمانوں کا دفاع کیا جائے ۔اس کے مطابق آر ایس ایس کے پاس ممبر شپ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی بینک اکاونٹ ہے اور نہ ہی یہ انکم ٹیکس کی ادائیگی کرتی ہے ۔امریکی تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ۱۹۴۸ء میں آر ایس ایس پرپابندی لگا دی گئی تھی کیونکہ اس کے ایک سرگرم رکن ناتھو رام گوڈسے نے مہاتماگاندھی کا قتل کر دیا تھا۔اس کے مطابق آر ایس ایس کا موقف فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ فسادات کے تعلق سے صاف ہے کہ ہندوتوا کے لیے یہ ضروری ہے ۔امریکی تھنک ٹینک نے ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء میں شہید کی گئی بابری مسجد کا بھی ذکر کیا ہے اور اس میں آر ایس ایس کے اراکین کی شمولیت کا اعتراف کیا ہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ ۱۹۹۸ء میں عیسائیوں پر ہوئے حملے کا بھی ذکر کیا ہے ۔اس کے مطابق جس وقت مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی ۱۹۹۸ء  سے ۱۹۹۹ء کے درمیان عیسائیوں پر آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی جانب سے ۱۱۶؍ حملے کیے گئے تھے ۔گجرات میں ہوئے ۲۰۰۲؍ کے واقعات کا بھی ذکر امریکی تھنک ٹینک نے کیا ہے اور اسے قتل عام قرا ر دیا ہے ۔
کیا یہ کوئی معمولی واقعہ ہے مگر قومی میڈیا میں یہ خبر موضوع بحث نہیں بنی جبکہ عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ آرایس ایس کے خلاف ملک کوئی چوٹا لیڈر بھی بیان دیتا ہے تو فرقہ پرستوں کا ٹولہ بلبلا اٹھتا ہے اور  سخت سے سخت جواب دینے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے۔لیکن امریکی تھینک ٹینک کے انکشاف پر ان کی بولتی بند رہی۔اس طرح میڈیا کی مہربانی سے یہ سچائی سماج کے ہر فرد کے کانوں تک نہیں پہنچ سکی۔  

: تیسرا واقعہ

۳۱؍دسمبر۲۰۱۴؍ کوگجرات پولیس نے فسطائیت کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی سے متعلق ایک ماک ڈرل کے دوران دہشت گردکے طور پر ایک شخص کو ٹوپی پہناکر پیش کیا۔ پولیس کی اس فرقہ پرستی پر مبنی ذہنیت مسلمانوں کے ساتھ سیاسی پارٹیوں نے بھی مذمت کی ہے۔گجرات کے ضلع سورت کی دیہی پولیس نے دہشت گردی سے متعلق ایک ماک ڈرل کا انعقاد کیا۔ اس مشق کے دوران گجرات پولیس  نے ٹوپی پہناکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دہشت گرد در اصل مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ ڈرل کے ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ پانچ پولیس اہلکار ایک مخصوص مذہب کی ٹوپی پہنے ہوئے تین فرضی دہشت گردوں کو پکڑے ہوئے ہیں۔
پولیس کے اس شرمناک کارنامے پرجتنی آواز بلند ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہو ئی چونکہ ذرائع ابلاغ نے صحیح طریقے سے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔حالانکہ ہندی اور اردو کے چند اخبارات میں نمایاں طور پر اس خبر کو شائع کرنے کا اثر اتنی تیزی سے آیا کہ دوسرے ہی دن گجرات کی وزیر اعلیٰ آنندی بین نے سورت پولیس کی اس کرتوت کے لئے معافی مانگ لی اور کہا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔

:میڈیا میں حقائق سے چشم پوشی کابڑھتارجحان 

میڈیاکے طر یقہ کارپرملک کے انصاف پسند لوگوں کے ذریعہ اعتراضات کوئی نہیں بات نہیںہے۔بارہااپنے فرائض کی تکمیل میںجانب دارانہ رویہ اختیار کرنے پرمیڈیاکومنہ کی کھانی پڑی ہے۔  سیاست  داں،سماجی کارکن ،صحافی اوردانشوروںنے اس قسم کی اوچھی حرکت سے باز آنے کی میڈیا کو نصیحت کی ہے،مگرسنسنی پھیلانے اور عوام کی توجہ صرف اپنی جانب مبذول کرانے کی ہوڑ میں وہ اپنے فرائض کو طاق پر رکھ دیتے ہیں۔تل کو تار بناکر پیش کرنے میں ماہر الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افرادکا یہ رجحان خطرناک شکل اختیارکرتا جا رہا ہے کہ وہ سچائی کا سامنا نہیں کر نے سے ہچکچاتے ہیں، جب کبھی کو ئی اہم واقعہ ان کی نظروں کے سامنے پیش آتا ہے تو بڑی چالاکی سے اپنی آنکھ موند لیتے ہیں،چونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایمانداری پرانہیں اپنے مالکوں کا انعام نہیںملنے والا ہے تو پھر کیوں نہ وہ کا م کیا جائے جس پراس کی واہ واہی بھی ہواور انعام بھی ملے،لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس کی پیش کش اور خبروں کی صداقت پر نہ جانے کتنے لوگوں کی نگاہیں ٹکی ہو ئی ہیں اور وہ یہ آس لگائیں بیٹھے ہیں کہ شاید ان کی رپورٹ کا خاطر خواہ نتیجہ بر آمد ہو۔مظلوم اور پریشان حال افراد کا کچھ بھلا ہو جائے اور ایسا چمتکارہو کہ ، قوم ،سماج اور ملک کی تقدیر بدل جائے۔بسا اوقات ایسا ہوتا بھی ہے کہ برسوں سے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے آرہے انسان کو میڈیا کے توسط سے مضبوط سہار ملا ہے اور ان کی راہ میں حائل مشکلات دور ہو ئی ہیں۔
 اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ ذرائع ابلاغ کی ترقی نے بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمہ میں اہم رول ادا کیا ہے۔تاہم اس کے توسط سے در آنے والی فحاشی اور بے حیائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔گزشتہ برس ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں ماہرین نے بر ملا یہ اعتراف کیا تھا کہ ٹی وی چینلوں کے توسط سے کھلے عام سیکس اور فحاشی کو دعوت دی جا رہی ہے۔ پہلے جنسی جرائم کم ہوا کر تے تھے مگر ٹی وی چینلوں اور انٹر نیٹ وغیرہ نے جنسی مجرم تیار کر نے شرو ع کر دئے ہیں۔
 یہ ایک الگ موضوع ہے ہم یہاںمیڈیاکے ان معاندانہ رویہ کا ذکر رہے ہیںجس کی وجہ سے ملک کے کروڑوں مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو جہاں ایک طرف نظر انداز کیا جار ہا ہے وہیں دوسری طرف انہیںبدنام اور تشدد پسند ثابت کر نے کی مسلسل کو ششیں جاری ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی کو ئی ناگہانی واقع پیش آتا ہے تو میڈیا کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا رخ کسی نہ کسی طرح  ایک مخصوص طبقہکی طرف موڑ دیا جائے۔مثال کے طور پرستمبر ۲۰۱۱ء میں جب دہلی ہائی کورٹ میں بم دھماکہ ہوا تو ایک ٹی وی کاصحافی بڑی شرمی سے خفیہ ایجنسی کے افسران سے یہ پوچھ رہا تھا کہ کہیں اس میں ’انڈین مجاہدین ‘کا تو ہاتھ نہیں ہے؟
اسی سال(۲۰۱۱)   انا ہزارے کے انشن کے موقع پر دہلی کےرام لیلا میدان میں انا کے انشن کے دوران پرنٹ سے لیکر الیکٹرانک میڈیا کے ادنی سے لے کر اعلی صحافی، رپورٹر اور اینکر براجمان تھے۔رام لیلا میدان کے کس باتھ روم میں گندگی ہے ،کہاں پانی کی کمی ہے ،دوائیں اور کھانے وغیرہ میں کیا دشواری ہورہی ہے ،احتجاج کاروں کونسی سہولیات دستیاب نہیں ہے۔انا کی ٹوپی،بنیائن،شرٹ ،لڑکیوں کے جسم پر تحریر سلوگن وغیرہ کو خوب دیکھایا گیا۔ایسی چیزیں وہ بریکنگ نیوز میں بھی دیکھا رہے تھے۔اس کے علاوہ ملک میں اور کیا ہور ہا ہے اس سے انہیں کوئی سرو کار نہیںتھا۔
 آئین کے آرٹیکل (اے) (۱)۹۱ کے مطابق میڈیا کو اپنی بات کہنے کی آزادی حاصل ہے لیکن کوئی بھی آزادی مطلق نہیں ہوسکتی لہٰذا مناسب پابندیاں لگنی ہیاہئے،کیوں کہ عوام تک سچی اور بامقصد باتیں پہنچانا میڈیا کا فریضہ ہے۔جسٹس مارکنڈے کاٹجومیڈیا کے چند نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میڈیا اکثر حقائق کو توڑ مروڑ کرپیش کیا کرتا ہے۔ جب کہیں کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو محض چند گھنٹوں کے اندر بہت سارے ٹی وی چینل کسی مسلم تنظیم کا نام لے کر یہ کہنے لگتے ہیں کہ اس نے دھماکہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ای میل کوئی شرانگیز شخص بھی بھیج سکتا ہے۔ کیا اس طرح ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں کسی ایک مخصوص فرقہ کو بلاتفتیش مورد الزام ٹھہرانا مناسب ہے؟ میڈیا اکثر اصل مسائل سے پہلو تہی کرکے غیر ضروری مسائل پرتوجہ مرکوز کرتا ہے۔ ملک کے اصل مسائل میں غریبی، بے روزگاری، مکانات کی قلت اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی ہے لیکن میڈیا ایسے معاملات کو اجاگر کرتا ہے جس سے عوام کاکوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ 
مثلا لیکمے فیشن ویک کے کوریج کیلئے 512منظور شدہ صحافی موجود تھے۔اناکے انشن کے دوران پوری میڈیا سمٹ کر رام لیلا میدان میں براجمان تھی۔24 گھنٹے صرف اور صرف ایک ہی خبر نشر کی جا تی رہی۔میدان میں موجود چند ہزار افراد کو اس طرح پیش کیا گیا جیسے پورا ملک اناکے ساتھ ہو۔
میڈیا کا ایک پہلو تو یہ تھا جو رام لیلا میدان میں انا کے انشن کے موقع پر دیکھنے کو ملا اب اس کے دوسرے پہلو پر غور کر یں جو انتہا ئی متعصبانہ اور صحافت حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔12اکتوبر۲۰۱۱ء کو علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی کی کشن گنج شاخ کے جلد قیام میں ٹال مٹول کا مظاہرہ کرنے پر بہار کی نتیش حکومت کے خلاف معروف عالم دین ورکن پارلیمنٹ مولانا اسرار لحق قاسمی کی قیادت میں تقریبا دو لاکھ سے زائد بہار ،بنگال اور ملک کی دوسری ریاستوں کے عوام نے زبر دست احتجاج کیا۔بتایا جا تا ہے کہ ’اے ایم یو سینٹر نہیں تو حکومت نہیں،نتیش کمار زمین دو ‘جیسے نعروں سے پورا خطہ گونج رہا تھا۔احتجاج میں شامل جم غفیر سے ارریا،پورنیہ،کشن گنج اور کٹیہار کا پورا منظر بدلا ہو اتھا،قومی شاہراہ پر ٹریفک جام اور ریلوے سیکشن پوری طرح ٹھپ تھا۔غور طلب امر یہ ہے کہ بہار میں اقلیتوں کی جانب سے کئے جانے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا احتجاج تھا جس میں مرد و خواتین ،بوڑھے اور بچوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔صبح کے سات بجے سے رات کے گیارہ بجے تک انسانوں کا ٹھا ٹھیں مارتا سمندر روئی دھاسہ کے تاریخی میدا ن میں موجود تھا،مگر اتنے بڑے احتجاج اور نہایت ہی حساس مو ضوع کو قومی الیکٹرانک میڈیا نے یکسر نظر انداز کردیا۔ اس دوہرے معیار کو کیانام دیا جائے کہ ایک طرف تو انا کیلئے ہر جگہ پلکیں بچھائے اور دوسری طرف اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے اہم ترین مسائل سے بھی چشم پوشی کی جائے۔

:اے کاش کہیں ایسا ہوتا

دسمبر۲۰۱۲ءکے اختتام پر قومی راجدھانی دہلی میں میڈیکل کی ایک طالبہ کی بس میںاجتماعی آبروریزی کے واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔میڈیکل کی یہ مظلوم طالبہ۱۳؍دنوں تک حیات و موت کی کشمکش میںمبتلا رہنے کے بعد بالاخر ۲۹؍دسمبر۲۰۱۲ء کی صبح سنگا پور کے ایک اسپتال میںزندگی کی جنگ ہار گئی۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ مسلسل کئی ہفتوں تک الیکٹرانک میڈیا نے اس معاملے پرپوری توانائی صرف کی اور انا ہزارے کی بدعنوانی مخالف تحریک کی طرح اس احتجاج کوبھی بے نظیر بنا دیا۔سوال یہ ہے کہ کیا ملک میںاجتماعی آبروریزی کا دل دہلا دینے والا یہ کوئی پہلا واقعہ تھا،کیا خواتین کے ساتھ اس طرح کی درندگی کا اور کوئی معاملہ پہلے پیش نہیں آیا،جن عورتوں کی عصمت تار تار ہوئیں وہ ملک کی بیٹی نہیں تھیں۔کشمیر سےلے کر کنیا کماری اور شمال سے جنوب تک جن دوشیزاؤں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے کیا وہ ملک کی دشمن تھیں یا ان میں اپنے ملک کے تئیں حب الوطنی کا جذبہ کم تھا؟اگر نہیں تو اس  پر الیکٹرانک میڈیا نے اس قدر ہائے توبہ کیوں نہیں مچائی؟
میڈیا کا یہی جذبہ اگر اس وقت ہوتا جب گجرات میں خواتین اور لڑکیوںکے ساتھ ظلم و زیادتی کی سیاہ تاریخ رقم کی گئی،جب سرعام گھر والوں کی موجودگی میں حیوانیت کا ننگا ناچ ہوااور ماں بہنوں کے سامنے  نہ صرف ان کی عصمت تارتار کی گئی ،بلکہ ان کے پیٹ کو چاک کرکے معصوم زندگیوں کو نگی تلوار کی نوک پر اچھال دیا گیا ۔کاش! ان مظلوم عورت پر ترس کھایا گیا ہوتا اور اسی واقعے سے سبق لے کرذرائع ابلاغ حکومت کو سبق دینے کی تلقین کرتے تو ان کی نیت نہ پر کو ئی شک کرتا اور نہ ہی ان کی ایمانداری پرانگلی اٹھتی اور کشمیر کے عوام کو بھی یہ شکوہ نہیں ہوتا کہ کشمیر کی بیٹی پر آئے دن ہونے  والےجنسی زیادتی کے واقعے پر قومی میڈیا اپنا منھ کیوںنہیں کھولتا ہے۔
اس تعلق سے دہلی میں ایک مظاہرہ کے دوران فوج کے سابق سربراہ جنرل( ریٹائرڈ )وی کے سنگھ کی شمولیت پرقومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین وجاہت حبیب اللہ نے جو اعتراض کیا تھاوہ حق بجانب تھا،مگر کسی نیوز چینل نے اسے اہمیت نہیں دی۔ انہوں نےوی کے سنگھ سے یہی سوال کیا تھا کہ کیا جموں و کشمیر میں فوجیوں کے خلاف عصمت دری کے الزامات کی کبھی جانچ کی گئی؟  جب وہ فوج کے چیف کمانڈرتھے تو ملک میں خاص طور پر جموں و کشمیر میں فوج کے خلاف عصمت دری کے سنگین الزامات تھے۔کیا ان الزامات کی جانچ ہوئی؟ کیاعصمت دری کی شکار خواتین کو انصاف دلانے کی کوئی کوشش کی گئی؟ جب کہ وہ فوجی سربراہ رہتے ہو ئے بہت کچھ کر سکتے تھے مگر انہوں نے کچھ نہیں کیا ۔
 اس واقعہ پر میڈیا کی خصوصی نظر عنایت پرمعروف مصنفہ اور سماجی رہنما ارون دھتی رائے نے بھی سوالات اٹھائے تھے۔اور کہا تھا کہ ’میں نہیں مانتی کہ دہلی ریپ کا دارالحکومت ہے، ریپ تو برسوں سے چلا آ رہا ہے،یہ ہماری ذہنیت میں سمایا ہوا ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا، کشمیر میں سکیورٹی دستے ریپ کرتے ہیں، منی پور میں بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اس وقت تو کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔کھیر لانچی (مہاراشٹر) میں دلت خاتون اور اس کی بیٹی کا ریپ کرکے انہیں جلا دیا گیا تھا، تب بھی ایسی آواز نہیں اٹھی تھی۔ احتجاج  پر انہوں نے کہا لوگوں کی سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے جو اس وقت آواز اٹھاتی ہے جب اونچی ذات کے با اثر لوگوں کے ساتھ کچھ ہوتا ہے۔کشمیر میں جب سکیورٹی فورسز غریب کشمیریوں کا ریپ کرتے ہیں، اس وقت سکیورٹی فورسز کے خلاف کوئی پھانسی کا مطالبہ نہیں کرتا، یہ دوہری ذہنیت ہے کہ آپ دہلی کے ریپ کے لئے آواز اٹھائیں لیکن منی پور اورکشمیر کی عورتوں کیلئے نہیں ؟‘
 کشمیری خواتین کی آبروریزی پر ملک کا میڈیا اورسیول سوسائٹی ہمیشہ خاموش رہا ہے؟ کشمیر میں تقریبا دو دہائی کے دوران اجتماعی عصمت دری کے نے جانے کتنے واقعات پیش آئے لیکن ان کے خلاف ملک میں کوئی آواز نہیں اٹھی اور نہ ہی مجرموں کے سزا کیلئے پر زور مطالبہ کیا گیا ۔ کنن پوش پورہ، جگر پورہ، چھانہ پورہ اور شوپیاں کے واقعات تو بہت مشہور ہیں کیا ان  عورتوںکی عصمت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ آسیہ اور نیلوفر کی نہ صرف عصمت دری کی گئی، بلکہ انہیں قتل بھی کردیا گیا مگر جموں و کشمیر میں فوجی،فورسز اور ٹاسک فورس افسروں اور اہلکاروں کے ہاتھوں مختلف مقامات پرکشمیری خواتین اور وجوان لڑکیوں کی انفرادی اور اجتماعی آبروریزی کے شرمناک اور انسانیت سوز واقعات پر کبھی سیول سوسائٹی کےنام نہا د علمبردار کا دل خو ن کے آنسو نہیں رویا اور نہ کسی نے ان مظلوم کشمیری خواتین اور لڑکیوں کے حق میں آواز بلندکی۔ دہلی میںہزاروں افراد ایک مظلوم طالبہ کیساتھ یکجہتی کا اظہارکرتے ہوئے ملزمان کیخلاف  سخت سزا کا مطالبہ کرسکتے ہیں تو کیا انسانی رشتے اور ازراہ انسانیت آبروریزی کی شکارکشمیری خواتین اور لڑکیوں کے حق میں آواز بلند نہیں کی جانی چاہیے؟۔
 آج ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا پر تنقید کرنے کے بجائے اس کی طاقت کو سمجھا جائے۔

:
چلتے چلتے

اسلام کے نام پر ہونے والے تشدد پر 10 سوال
اگر آپ گوگل پر تلاش کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ دنیا میں ہونے والےزیادہ تر پرتشدد واقعات اسلام کے نام پر ہو رہےہیں، اس سے یہاں پر کچھ سوال اٹھتے ہیں جو جلد جواب طلب ہیں۔
1. ایسے کتنے اسلامی ملک ہیں جنہوں نے غزہ حملے کی طرح پشاور حملے، پیرس حملہ اور بوكوحرام کے قتل عام کی ہمیشہ مذمت کی ہو؟
2. فرانسیسی میگزین چارلی  ہیبدو کے صحافیوں اور كارٹونسٹو ںکے قتل کے بعد بہت سے اسلامی سائبر گروپ سامنے آئے، جنہوں نے سلوگن دیا: میں مسلم ہوں، چارلی نہیں، ایسے میں بھارت اور اس کے باہر ایسی کتنی مسلم تنظیم یا دانشور ہیں جنہوں نے اس کے خلاف جانے  کی جرائت کی؟
3. فرانسیسی اسکولوں میں پڑھنے والے مسلم بچوں نے ان کے والدین کے کہنے پر چارلی ہیبدو حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لئے 2 منٹ کا مون رکھنے سے انکار کر دیا، ایسے میں اسلام کو امن کا مذہب بتانے والی کتنی تنظیموں نے بچوں کے ذہنوں میں اس طرح کا زہر نہ گھولنے کی بات اٹھائی؟
4. کیا کوئی غیر مسلم آپنی مذہبی کتاب کے مطابق حکومت قائم کرانے کے لئے بچوں کا قتل کراتا ہے؟
5. گزشتہ پانچ سالوں میں اسلام کے نام پر مارے گئے لوگوں کی تعداد کے مقابلے کسی اور مذہب کے نام پر مارے گئے لوگوں سے کی جا سکتی ہے؟
6. اسلامی ممالک میں  کتنےجمہوری ہیں؟
7. کتنے مسلم اکثریت والے ملک ہیں جو اسلامی نہ ہوکر جمہوری ہیں؟
8. کتنی بار اسلام میں بہتری کے لئے اندرونی طور پر آوازیں اٹھی ہیں؟
9. کیا وہ  سدھار وقت کی کسوٹی پر کھرا اترا؟
10. کیا اسلامی معاشرے میں جدید متوسط طبقے سے مطابقت بٹھانے کی صلاحیت ہے؟
(۱۴ جنوری ۲۰۱۵  کوانڈیا ٹوڈے گروپ کے آج تک نیوز پورٹل سے ماخوذ:)
 یہ مقالہ عالیہ یونیورسٹی کولکتہ میںمارچ ۲۰۱۵ء میں منعقدہ بین الاقوامی سیمینار کیلئے لکھا گیا تھا

Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا