اپنے ایک نکاتی ایجنڈہ پر گامزن بی جےپی

DR SHAHABUDDIN SAQIB QASMI
’’ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سماجی شعبوں سے توجہ ہٹی ہے، ملک میں ضروری اور بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے،چیزیں بہت خراب ہو گئی ہیں، ہم نے تعلیم اور صحت میں بقدر ضرورت کام نہیںکیا۔۲۰۱۴ء کے بعد سے ان شعبوں میں ہم غلط سمت کی طرف گامزن ہیں۔ہندوستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کے باوجود۲۰؍ سال پہلے اس شعبے کے چھ ممالک میں ہندوستان سری لنکا کے بعد دوسرا بہترین ملک تھا لیکن اب یہ دوسرا بدترین ملک بن چکا ہے۔ہندوستانی ان چیزوں پر فخر  ضرورکریں جو ہمارے پاس ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ بہت سی چیزوں پر شرمندہ ہونے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘یہ خیالات ہیںنوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیہ سین کے۔دہلی میں ۸؍جولائی کو اپنی کتاب کی رسم اجرا کی تقریب میں انہوں نے مودی حکومت کی جن ناکامیوں کی طرف اشارہ کیا ہےاسے نظر انداز کرکے بی جےپی ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس اتحاد کو بہ آسانی شکست دینے کے خواب کو پورا نہیں کر سکتی ہے۔
  بھارتیہ جنتا پارٹی کی حالیہ سیاسی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو یہی اندازہ ہوتا ہےکہ اس کے پاس مشن ۲۰۱۹ء کیلئے کوئی خاص ایجنڈہ نہیں ہے اور بی جے پی ہند تواکے ایک نکاتی ایجنڈے کے سہارے ہی آنے والے پارلیمانی انتخابات کو جیتنا چاہتی ہے۔اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔مرکزی وزراء جینت سنہا اور گری راج سنگھ کی یکے بعد دیگرے موب لنچنگ میں سزا یافتہ مجرموں کی حوصلہ افزائی اور فرقہ وارانہ فسادات کے ملز م سے جیل میں ملاقات نے اپوزیشن پارٹیوں کے اس الزام کو درست ثابت کردیا ہے کہ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا چناؤ کیلئے بی جے پی کے پاس کوئی خاص ایجنڈہ نہیں ہے جس کو لے کر وہ عام کے سامنے جائے۔یہی وجہ ہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس سمیت اپنے بیشتر وعددوں میں ناکام ثابت ہو چکی مرکز کی مودی سرکار ابھی سے اپنی پرانی ڈگر پر چل پڑی ہے۔انتخابات کے ایام جوں جوں قریب آتے جا رہے ہیں پارٹی اپنے بھگوارنگ میں رنگتی جا رہی  ہے۔   
 دلچسپ نعروں اوراثر انگزیز خطاب کے ذریعہ عوام کا دل موہ لینے والے وزیراعظم نریریندرمودی کی اپنے بے لگام وزراء اور پارٹی کے اعلیٰ لیڈروں کی بے ہودہ حرکات و سکنات اور شرانگیزی پر خاموشی اس بات کی غماز ہےکہ یہ لیڈران بلاوجہ ہی موب لنچنک کے مجرموں کی حوصلہ افزائی اور فسادیوں سےمیل ملاپ نہیں بڑھا رہے ہیں بقول غالب ’کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے‘۔
۷؍جولائی۲۰۱۸ء بروز ہفتہ جہاںمرکزی وزیر گری راج سنگھ نے جھارکھنڈ کے نوادہ جیل میں فساد بھڑکانے کے۱۵؍ماہ پرانے معاملے میں گرفتار بجرنگ دل کے کارکنوں سے نہ صرف ملاقات کی، بلکہ اس موقع پر نفرت انگیز بیان دیتے ہوئے بہار کی حکومت پر نشانہ سادھا اور کہاکہ نتیش سرکارمیں ہندوئوں کو ذلیل کیا جا رہاہے، ہندوئوں کو تنگ کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بات نہیں کی جا سکتی۔تاہم اس کے ایک دن بعد دہلی میں جنتادل یو  کی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں بغیر نام لیے نتیش کمار نے گری راج سنگھ کے بیان پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اورکہا کہ حکومت ہند کے ایک وزیر جیل میں جاکر فسادیوں سے ملاقات کر رہے ہیں لیکن ان کی حکومت نہ کسی کو بچاتی ہے اور نہ پھنساتي ہے لیکن جو لوگ جو اس طرح کا دھندہ کریں گے حکومت انہیںنہیں بخشےگي۔بہار حکومت بدعنوانی، جرائم اور فرقہ وارانہ تشدد سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی،چاہے ان کی حکومت رہے یا نہیں۔
اسی طرح مودی حکومت کے ایک دوسرے وزیر جینت سنہا نے اس سے ایک دن قبل جمعہ کو رام گڑھ موب لنچنگ کیس کے۸؍ مجرموں کا مالاپہنا کرخیرمقدم کیا اور میٹھائی کھلائی۔
 جھارکھنڈ کے مویشی تاجر علیم الدین انصاری کو ہزاری باغ ضلع کے رام گڑھ میں دن دہاڑے قتل کرنے والے مجرموں کو فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعہ۲۱؍ مارچ ۲۰۱۸ء کو عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے،لیکن جینت سنہا نے کو پولیس کی تحقیقات پربھی شک ہے۔انکا کہناہےکہ یہ لوگ معصوم ہیں اور انہیں پھنسایا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے مجرموں کی قانونی اور مالی مدد کی ہے، معصوم افراد کی حمایت کرنے میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔
ملک میں ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات سے قبل اس طرح کے واقعات حادثاتی طور پر پیش نہیں آرہے ہیں بلکہ ووٹروں کو پولرائز کرنے کیلئے ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔اگر مرکزکی مودی حکومت کی نیت ٹھیک ہوتی تو موب لنچنگ جیسے انسانیت سوز واقعے آئے دن رونما نہیں ہوتے۔گئورکشکوں کوبے قصوروں انسانوں کے قتل کی کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی۔
غور کرنے کی بات یہ ہےکہ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور عدالت عظمیٰ نے ملک میں آئے دن ہورہے ہجومی تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا  اور کہا کہ کسی بھی شخص کوقانون کو اپنے ہاتھ میںلینے کا حق نہیں، اس طرح کے حادثات پر قابو پایا جانا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ گئورکشا کے نام پر بھیڑ تشدد پر آمادہ ہوچکی ہے، جو کہ ایک جرم ہے۔عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت کو حکم دیا کہ اس طرح کے حادثات سے نمٹنے کے لئے وہ ریاستی حکومتوں کو احکامات جاری کریں۔
ملک میں جاری ہجومی تشددکے واقعات بےقابو کیوں ہیں ؟یہ سوال سب سے اہم ہے۔وزیر اعظم نریندرمودی کو اس کا جواب دینا چاہئے۔کیوں کہ اس طرح کے متعدد واقعات میں حکومت یا بی جے پی کے لوگ کہیں نہ کہیں ملوث ہوتے ہیں، اس لئے قانون بھی مجبور ہے اور ملزم کو آنا فانا میں ضمانت مل جاتی ہے۔ جیسا کہ اتر پردیش کے ہاپوڑ میں گئوکشی کے الزام میں پیٹ پیٹ کر قتل کیے گئے نوجوان محمد قاسم کے کلیدی ملز کو سیشن عدالت سے محض۲۰؍دن میں ضمانت دے دی گئی۔حد تو یہ ہےکہ متاثر کے اہل کے خانہ کو وکیل رکھنے تک کی مہلت نہیں دی گئی۔اگر ایسے سنگین جرم میں بھی ملزمین کو چھوٹ دی جاتی ہے اور وہ آزاد ہوجاتے ہیں تو اس ملک میں انصاف کا اللہ ہی مالک ہے۔ہر طرف ووٹ کی سیاست ہو رہی ہے جس کی وجہ سےقاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور مظلومین و متاثرین انصاف کیلئے دردربھٹکنے پر مجبور ہے۔یہی وہ اہم وجہ ہے کہ ہے ملک بھر میں دائیں بازو کے غنڈےکھلے عام واردات انجام دیتے ہیں اور بہت ہی سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی منظرکشی کرتے ہیں اور پھر ایک مخصوص کمیونٹی کو ڈرانے کے مقصد سے اسے سوشل میڈیا پر عام کردیتے ہیں۔بی جے پی کی حکومت کے آتے ہیں شرپسندوں نے جو یہ طریقہ اپنایااس کا سلسلہ دن بہ دن دراز ہوتا گیا مگر اس قسم کے گھناؤنےواقعات پر قابو پانے کی آج تک سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔صرف اس لئے کہ اگرفسادیوں پر کارروائی کی جاتی ہے تو ان کی سیاست کے بھی بارہ بج جائیں گے۔بر سر اقتدار پارٹی کے رہنماؤں کوملک کی نہیں اپنی  تنظیم کی فکر ہے ۔ان کی آنکھوں پر کالی پٹی پڑی ہوئی ہے،اس لئے  بی جے پی اور آرایس ایس کے لوگوں کے کالے کارنامے انہیں نظر نہیں آتے ۔لیکن سیاست کا اونٹ کب کس کروٹ بیٹھ جائے یہ کوئی نہیں جانتا۔

Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا