بہار میں دنگائیوں کو درندگی کی کھلی چھوٹ!
ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
’’یہ
چونکانے والی بات ہے کہ منجو ورما کو تلاش نہیں کیا جا سکا، کمال ہے۔ کسی
کو یہ نہیں معلوم کہ سابق وزیر کہاں ہیں۔ بہار حکومت کو اس معاملے میں جواب
دینا ہوگا۔بہت اچھا، کابینہ وزیر فرار ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سابق
کابینہ وزیر فرار ہو اور کسی کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کہاں ہیں۔ آپ کو اس
معاملےکی سنجیدگی کا علم ہے کہ کابینہ وزیر فرار ہیں۔ اٹس ٹو مچ۔‘‘
دراصل سپریم
کورٹ نے گزشتہ دن مظفر پور جنسی استحصال معاملے میں سابق وزیر منجو ورما کو
کئی ماہ بعد بھی گرفتار کیےجانے میں ناکام رہنے پر بہارپولیس کی نا اہلی
پر سخت پھٹکار لگائی اور ڈی جی پی کو بذات خود عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت
دی ۔ عدالت عظمیٰ کے اس تبصرے کی روشنی میں بہار پولیس کی نااہلی کے ایک
اور واقعہ کو دیکھیں تو بات پوری طرح سمجھ میں آجائے گی کہ آخر کار بار
بار سپریم کورٹ بہار پولیس کی کیوں سرزنش کررہا ہے۔
بہار کے ضلع
سیتامڑھی میں گزشتہ ماہ بے رحمی سے قتل کیےگئے زین الحق انصاری کے معاملے
میں پولیس نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی،سبھی قاتل پولیس کی گرفت سے
باہر ہیں ۔اس معاملے میں ضلع کے ایس پی وکاس برمن نے جودلیل دی وہ کافی
مضحکہ خیز اور بہار پولیس کی بہادر ی کو اجاگر کرتا ہے۔ اس انتہائی سنگین
معاملے میں انہوں نے کوئی کارروائی اس لئے نہیں کی کہ پولیس کی پوری توجہ
چھٹھ پوجا پر تھی۔ جبکہ چھٹھ ایک ایسا تہوار ہے جو کسی بھی کےطرح شور و
ہنگامے سے پاک پرسکون ماحول میں منایا جاتاہے مگر ایس پی نے ملزمین پر کوئی
کارروائی نہیں کرنے کیلئے اس تہوار کو بہانا بنایا۔ خیر سے یہ تہوار بھی
مکمل ہو گیا مگر کارروائی نہیں ہورہی ہے اس کی وجہ کیا ہے۔ اس سوال کے جواب
کو تلاش کرنے سے قبل سیتامڑھی فساد سے جڑی ہر کڑی کو سمجھنا ضروری ہے۔
۲۰؍اکتوبر
۲۰۱۸ءکو درگا پوجا مورتی وسرجن کے موقع پر پولیس کی موجودگی میں اقلیتوں پر
کیے گئے مظالم کو تقریباً ایک ماہ ہونے کو ہے مگر قاتل پولیس کی گرفت سے
باہر ہے۔ ۸۲؍سالہ بزرگ کو سرعام گلا کاٹ کر قتل کرنے اور پھر انہیں آگ کے
حوالے کرنے والے درندے ویڈیو اور تصاویر میں موجود ہیں اس کے باوجود پولیس
کے ہاتھ قاتلوں تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ کچھ تو ہے جو پولیس کے لمبے ہاتھ
کو قاتلوں تک رسائی سے روک رہے ہیں۔
سوساشن بابو
کی سرکار میں ایک مخصوص فرقہ پر دن کے اجالے میں جس منظم طریقے سے حملے گئے
گئے اور ان کے مکان و دکان کو جلایا گیا۔ دنگائیوں نے پولیس کو یہ کہہ کر
الگ رہنے کا انتباہ دیا کہ’ ایک گھنٹے کا وقت دیجئے تمام مسلمانوں کو ختم
کر دیںگے‘۔ ظلم و بربریت کا جو ننگا ناچ سیتا مڑھی میں نتیش کمار کی حکومت
میں شرپسندوں نے کھیلا اس کے تمام ثبوت منظر عام ہوچکے ہیں۔سوشل میڈیا پر
وہ ساری ویڈیوز اور فوٹیج موجود ہیں جس میں دیکھا جاسکتا ہےکہ کس طرح سے
مشتعل بھیڑ نےزین الانصاری کی پٹائی کی، انہیں گھسیٹا اورگلا کاٹ کر گؤ
شالا کے گیٹ کے قریب سڑک پرسرعام جلا دیا۔ دل کو دہلادینے والے اس واقعہ کو
دبانے اور حقائق کو چھپانے کی پوری کوشش کی گئی۔ پہلے نیٹ بند کردیا گیا ،
لاش کو دوسرے ضلع مظفر پور میں کئی روز کے بعد پوسٹ مارٹم کے لئے بھیجا
گیا اور ہزار منت و سماجت کے باوجود ان کی میت کو گھر تک نہیں لانے دیا
گیا۔ مجبور اہل خانہ نے حکام کی ہدایت کے مطابق مظفرپور میں ہی انہیں سپرد
خاک کردیا۔
حیرت کی بات
یہ ہےکہ ریاست کی میڈیا نے بھی اپنے فرائض کو انجام دینے میں عصبیت کا
سہارا لیا اور صحیح رپورٹنگ نہیں کی جس سے بہت سے حقائق پر آج بھی پردہ
پڑا ہوا ہے۔ بہار حکومت کی شان میں دن رات قصیدے لکھنے مصروف صحافیوں نے
بھی آنکھ بند کرلی، کچھ نے معمولی واقعہ قرار دیکر عوام الناس کو گمراہ
کرنے کی کوشش کی، مگر سوشل میڈیا کے اس عہد میں لوگوں نے ان’ نمک خواروں‘
کوخوب خوب آئینہ دیکھایا۔
قومی میڈیا
کی رپورٹنگ پر غور کریں تو اس فساد کے برپا کرنے میں سیتا مڑھی کے ایس پی
وکاس برمن پر شک کی سوئی اٹھتی نظر آرہی ہے، چونکہ مسٹربرمن کاریکارڈ بہت
خراب ہے،ان کا دامن فرقہ وارانہ فساد سے محفوظ نہیں ہے۔۲۰۰۸ء بیچ کےآئی پی
ایس وکاس برمن بہار میں جہاں جہاں گئے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما
ہوئے اس لئے اس تشدد میں بھی ان کے کردار پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔
متاثرہ خاندان کی طرف سے پولیس کو ایک ملزم کی تصویر بھی دی گئی ہے، لیکن ابھی تک پولیس اس کی تلاش میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
بہت ہی غور و
فکر کرنے کی بات یہ ہےکہ ملک بھر میں ہجومی تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے
ہیں۔ اس وقت شاید ہی کوئی ریاست اس لعنت سے پاک ہو۔ اس کی خاص وجہ صرف یہ
ہےکہ موب لنچنگ کے ملزمین پر مناسب کارروائی نہیں ہوتی ،جس سے حوصلہ پاکر
شرپسند عناصر دوسرے شکار کی تلاش میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف ہزارہا
کوششوں کے باوجود موب لنچنگ کے شکار لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔ پولیس کیس
درج کرنے میں نہ صرف آنا کانی کرتی ہے بلکہ متاثرکو ہی مجرم بنانے میں لگ
جاتی ہے۔ اس قسم کے سارے کیسیز کی کڑیاں تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے جس سے یہ
اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا ہے کہ یہ سب منظم ہے۔ حکومت اور حکام کی کھلی
چھوٹ کے سبب اس پر قدغن نہیں لگ پا رہا ہے۔
دہلی
یونیورسٹی کے پروفیسر و مشہور سماجی کارکن
جناب اپوروانند نے ہجومی تشدد کے
تعلق سے جو اظہار خیال کیا ہےاس سے بھی یہی اشاہ ملتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
’’ جسے ہم بھیڑ کہتے ہیں وہ بھیڑ نہیں ہے، دراصل وہ منظم گروہ ہے اور یہ
سارے واقعات یوں ہی نہیں ہو رہے ہیں کہ اچانک کسی کو غصہ آگیا اور اس نے
پیٹ دیا، یامحض شک کی بنیاد پر حملہ کردیا، بلکہ اس کی تیاری کی جاتی ہے،
اس کے لئے پہلے سے انتظامات کیے جاتے ہیں،اس کی پوری مشینری ہے،ایک تنتر ہے
جو اس بھیڑ کو بناتا ہے اور اس کے بعد اسے شکل یہ دی جاتی ہےکہ یہ منظم
نہیں تھا بلکہ بھیڑ کو اچانک غصہ آگیا یا اسے غلط فہی ہو گئی اور اس نے اس
پر حملہ کردیا ‘‘۔
اچھی بات یہ
ہےکہ سیتامڑھی موب لنچنگ کے واقعہ پر جب اپنے اور پرائے سبھی رہنماؤں نے
آنکھ موند لی تودیر سے ہی صحیح بہار کے سابق وزیر اعلیٰ و آرجے ڈی کے
لیڈر تیجسوی یادو نےنتیش کمار سخت حملہ کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے زین
الانصاری کو زندہ جلانے والے فسادیوں کو ابھی تک اس لئے نہیں پکڑا ہے تاکہ
وہ کسی اور کو زندہ جلا سکیں۔انہوں نے کہاکہ نتیش کمار انتخابات سے پہلے
فرقہ وارانہ ماحول بنا کرووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کا عظیم اتحاد میں دم
اس لئے گھٹ رہا تھا کیونکہ ہمارے رہتے انہیں کسی کو زندہ جلوانے اور فرقہ
وارانہ فسادات اسپانسر کروانے کی چھوٹ نہیں تھی۔
اس سے پہلے
کہ بہت دیر ہوجائے اور مظلومین کی قصور واروں کو کیفر کردار تک پہچانے کی
آس دم توڑ جائے حکومت بہار کو چاہئے کہ سیتامڑھی ہجومی تشدد کی غیر
جانبدارنہ تحقیقات کرائے اور شرپسندوں کے ساتھ ساتھ ملز افسران پر بھی ٹھوس
کارروائی کی جائے۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بی جے پی کے ساتھ
حکومت میں آنے کے بعد سے بہار کے حالات بدل رہے ہیں ، بھگوا تنظیمیں ریاست
کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار بیٹھی ہیں۔ مظفرپور،
دربھنگہ، گیا سمیت مختلف اضلاع اس کے کئی نظارےپچھلے دنوں میں نظر آچکے
ہیں۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی میں سینئرسب ایڈیٹر ہیں)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in
Comments
Post a Comment