تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور ایم آئی ایم اتحاد کیوں ہے خاص؟

 ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
اس وقت ہندوستان کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں،ان میں سے مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ اور میزورم میں انتخابات مکمل ہوچکے ہیں، جبکہ تلنگانہ اور راجستھان میں ۷؍دسمبر کو ایک مرحلہ میںووٹنگ ہوگی ۔پانچوں ریاست کے انتخابی نتائج ۱۱؍دسمبر کو آئیں گے۔اس لئے سیاسی رہنماؤں کی نظر یںمؤخر الذکر ریاستوں پر مرکوز ہیں۔ تلنگانہ اور راجستھان دونوں ریاستوں میں انتخاب کا فی دلچسپ ہے۔اس کی وجہ یہ ہےکہ ایک طرف جہاں تلنگانہ کے قیام کے بعد دوسری مرتبہ اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں اور برسر اقتدار پارٹی تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس)کو سخت چیلنج کا سامنا ہے، اسی طرح راجستھان میں بی جے پی کی کشتی بھنور میں ہے۔وہاں سے جو رپورٹیں آرہی ہیں اس میں بی جے پی کے لئے کچھ خاص نہیں ہے ، پارٹی شکست کے دہانے پرکھڑی ہے۔حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی ،صدر امت شاہ ،راجناتھ سنگھ،سشماسوراج اور یوگی ادیتہ ناتھ سمیت بی جے پی نےبڑ ےسورماؤں کوراجستھان کی جنگ جیتنے کیلئے لگادیا۔آر ایس ایس سمیت دائیں بازو کی دیگر تنظیموں کی جو کوششیں ہیں وہ الگ۔  
تلنگانہ کی بات کریں تو وہاں بھی  بی جے پی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیںبرسر اقتدار پارٹی کے خلاف میدان میں ہیں، جس کی وجہ سے ٹی آرایس کوسخت مقابلے کا سامناہے۔۱۱۹؍سیٹوں پر لڑے جا رہے انتخابات میں ٹی آرایس نے سیاسی داؤ کھیلتے ہوئے ریاست میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنےمیں اہم کردار اداکرنے والی مجلس اتحاد المسلمین(ایم آئی ایم)کو اپنے ساتھ شامل کرکے سیاسی پنڈتوں کو بھی چونکا دیاہے۔ایم آئی ایم کے ساتھ مل کراسمبلی چناؤ لڑنے سے وزیر اعلیٰ چندرشیکھرراؤ( کے سی آر )کے لئے خطرہ کسی حد تک کم ہوا ہے ۔راشٹریہ تلنگانہ سمیتی کے بینر تلےکے سی آر نے تلنگانہ ریاست کے قیام کے لیےتقریبا۱۴؍ سال تک تحریک چلائی تھی، اس لئے نئی ریاست کی تشکیل کے بعد پہلی حکومت بنانے میںوہ کامیاب ہوگئے۔اگر اس بار وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی قیادت میں لگاتاردوسری حکومت بنے گی۔چیف منسٹرکی کرسی پر برقرار رہنے کے لئے ہی انہوںنے مجلس سے اتحاد کیا ہے۔اب اس کے نتائج کیا آئیں گے یہ تو ۱۱؍گیارہ دسمبر کو پتہ چلے گا تاہم ٹی آر ایس نے چناوی تال میل کرکے ملک کی دوسری ریاستوں کی علاقائی پارٹیوںکو یہ پیغام ضروردیاہےکہ اب آئی ایم آئی سیاست میں شجر ممنوعہ نہیں رہی۔صوبوں کے اپنے مسائل،اپنی حاجات اور علیحدہ پالیسیاں ہوتی ہیں ،اگر ہدف ایک ہو، توکسی بھی جماعت سے اتحاد کرنے کی گنجائش برقرار رہتی ہے ۔کئی ریاستوں میں اسکی مثالیں موجود ہیں کہ حکومت سازی کے لئے بڑی سیاسی پارٹیوں نےفکری اور نظریاتی اختلافات کے باوجود مل کر حکومت بنائی ہے۔اس لئے اتحاد المسلمین کے ساتھ جاکر کے سی آرنے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تلنگانہ میں مجلس مسلمانوں اور کمزور طبقات کی مسلسل نمائندگی کرتی آر ہی ہے،ایسے میں اسے اہمیت دے کر وزیر اعلیٰ چندر شیکھرراؤ نے بڑا داؤ کھیلا ہے۔چونکہ بی جے پی کو چھوڑ کرتمام جماعتوں کی نگاہیں مسلم ووٹروں پر ہے۔ ریاست میں مسلمانوں کی کل آبادی کی۱۲ء۷؍ فیصد ہے اور آئندہ لوک سبھا کے انتخابات میں بھی مسلمان کلیدی رول ادا کر سکتے ہیں۔اس لئے اسمبلی انتخابات کے لئے جو اتحاد بن رہے ہیں، ممکن ہے کہ وہ پارلیمانی انتخابات تک ایک ساتھ رہیں۔ حکمراں تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) کے خلاف ہاتھ ملا چکی اپوزیشن پارٹیوں کو امید ہے کہ جنوب کی اس ریاست میں ان کا یہ اتحاد۲۰۱۹ءکے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور اس کی ہمنوا جماعتوں سے مقابلے کے لئے ایک جامع اتحاد بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ یہی وجہ ہےکہ بی جے پی اور عظیم اتحاد جس میں کانگریس، تیلگودیشم(ٹی ڈی پی) کے ساتھ ساتھ جناسمیتی اور سی پی آئی بھی شامل ہے نےپوری طاقت جھونک دی۔بی جے پی اور کانگریس کے سبھی بڑے لیڈران یہاں کی تشہیری مہم میں حصہ لیا،بڑے بڑے اجلاس کرنے کے علاوہ اہم کانفرنسوں کے ذریعہ ٹی آر ایس اور ایم آئی ایم اتحاد کو ہرانے کےلئے سبھی حربے استعمال کیے۔کانگریس پارٹی نے جہاں اپنے انتخابی منشور میںریاست کے مسلمانوں کے لئے متعدد خوش کن وعدے کیے ہیں وہیں آخری وقت میں بڑے ڈرامائی انداز میں سابق کرکٹر محمد اظہرالدین کو ریاست کا کارگزار صدر منتخب کرکےمسلم ووٹوںپرنقب زنی کی اچھی کوشش کی۔یہ اور بات ہےکہ حیدر آباد کے ووٹروں نے کانگریس اور ٹی ڈی پی کے اتحاد کو’ مہاکٹامی‘ کا نام دیا ۔تاہم اگر مسلمانوں کا ووٹ بڑے پیمانے پر تقسیم ہوگیا تو اس کا ریزلٹ یکسر بدل جائے گا۔دوسری طرف اگر اسمبلی انتخابات میں ڈی آر ایس اور مجلس اتحاد کے مثبت نتائج آئیں گے تو آنے والے لوک سبھا کے انتخابات میں بھی یہ اتحاد اہم کردار اداکرے گا اور اس کی باز گشت دوسری ریاستوں میں بھی سنائی دے گی۔
 ایک خاص حکمت عملی کے تحت تلنگانہ پر قبضہ کرنے لئے سیاسی پارٹیوں نے اپنے بڑے بڑے لیڈروںکو چناوی میدان میں اتارا ۔خود وزیر اعظم نریندرمودی ، بی جے پی کے صدرامت شاہ کے ساتھ ساتھ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدیتہ نا تھ جو اپنی شعلہ بیانی کے جانے جاتے ہیں، انہیں اسٹار پرچارک کی شکل میں بی جے پی نے لانچ کیا۔یوگی نے تلنگانہ میں زبردست انٹری کی ۔اپنے پہلے اجلاس میں ہی انہوںنے مجلس اتحاد المسلمین پر زبردست حملہ کیا۔۲؍دسمبر کو ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ نے حیدر آباد سے لوک سبھا رکن اسد الدین اویسی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ میں بی جے پی کی حکومت بنتی ہے تو میں آپ سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اویسی کو بھی حیدرآباد سے اسی طرح بھاگنا پڑے گا، جیسے نظام بھاگنے پر مجبور ہوئے تھے۔تلنگانہ میںیوگی کتنے مفید ثابت ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر وہاں قدم رکھتے ہی
ں انہوں نے جو بیان دیا ہے اس سے تلنگانہ کی سیاسی حرارت تیز ہوگئی ۔یہ اور بات ہےکہ اویسی برادران کی طرف سے بھی یوگی کو دندان شکن جواب دیا گیا۔اویسی نے پوچھاکہ ملک آپ کا ہے، میرانہیں؟ کیا بی جے پی کے خلاف بولنے پر وہ ملک سے بھگادیں گے؟ اویسی نے کہاکہ بی جے پی کا فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دینا ہی اصلی چہرہ ہے۔انہوں نےکہاکہ یوگی آدتیہ ناتھ کے علاقے میں ہرسال۱۵۰؍بچوں کی موت ہوتی ہے،بچے مررہے ہیں۔ دواخانوں میں آکسیجن نہیں اوروہ حیدر آباد آکرنفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی بات کررہے ہیں۔
 بی جے پی صدر امت شاہ نے بھی تلنگانہ کے ضلع ورنگل میں اپنی ایک انتخابی ریلی میں کہا تھا کہ ٹی آرایس صدرکے چندرشیکھرراؤ نے مسلمانوں کو ۱۲؍فیصد ریزرویشن دینے کی جوبات کہی تھی، اسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ جب تک بی جے پی ہے، مذہب کی بنیاد پرریزرویشن کی مخالفت کی جاتی رہے گی۔ نہ ہم۱۲؍فیصد ریزرویشن دیں گے اورنہ کسی کو دینے دیں گے۔ تلنگانہ کی آواز راجستھان میںسنائی دی ۔وہاں کی انتخابی گہما گہمی کے درمیان وزیراعظم نریندرمودی نے کہا کہ کانگریس مسجدوں اور چرچوں کوبجلی تو دے رہی ہے، مگرمندروں میں اسے بجلی دینا منظورنہیں ہے۔
 (مضمون نگار انقلاب دہلی میں سینئرسب ایڈیٹر ہیں۔)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in

Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

اب دلّی دورنہیں!

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا