سیّاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا
ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
’’دہلی پر پرتھوی چوہان کی حکمرانی کے ۸۰۰؍ سال کے بعد پہلی بار پوری طرح سے ہندوؤں کی حکومت بنی ہے‘‘لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی جیت سے پر جوش ہوکر یہ دعویٰ نومبر۲۰۱۴ء میں قومی راجدھانی دہلی میں منعقدہ ’ تین روزہ عالمی ہندو کانفرنس ‘ میں وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل نے کیا تھا۔ بعدمیں اس بیان کو وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی جانب منسوب کرنے پر پارلیمنٹ میں خوب ہنگامہ ہواتھا اور ’آؤٹ لک‘ میگزین کو اس غلطی کے لئے معافی مانگی پڑی تھی۔سوال یہ نہیں ہے کہ یہ بات کس نے کہی،کیوں کہی اور کس نے معافی مانگی۔سوال یہ ہے کہ مئی ۲۰۱۴ء میں مودی حکومت کی تشکیل کے بعد سے ملک بھر کے جو حالات ہیں وہ اس خطرناک فکر کے موافق ہیں یا مخالف؟اس نکتہ پر اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ہندوستان کے موجودہ حالات کے پس منظر میں وی ایچ پی کے آنجہانی لیڈر کی بات سوفیصد درست معلوم ہوتی ہے اور کوئی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے میں ملک ہندوستان میں واقعی خالص ہندوؤں کی حکومت نہیںہے۔دہلی پر بی جے پی کے قبضہ کے فوراًبعد لو جہاد، گھر واپسی، پاکستان جاؤیا قبرستان،تبدیلی مذہب کے نام پر اقلیتوں کو ہراساں کرنے اور اب کچھ دنوں سے گائے اور گوشت کے نام پردائیں بازو کے انتہا پسندوں کا ننگا ناچ بلا روک ٹوک جاری ہے۔
مہاراشٹر،مدھیہ پردیش ،گجرات ،کرناٹک ،تمل ناڈو،بہار ،اتر پردیش، ہریانہ ، پنجاب اورراجستھان میں پے درپے رونما ہونے والے ان انسانیت سوز واقعات پر غور کریں تو ایسامحسوس ہوتاکہ جیسے شرپسندوں کوآزاد ہندوستان میں کھلی چھوٹ حاصل ہوگئی ہو اور وہ ’سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا‘ کے مصداق یہ لوگ مرکزمیں قائم مودی حکومت سے مکمل فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قانون کے محافظ بھی بے دست و پا ہیںاور کھلے عام مسلمانوں اور دلتوں پر مظالم ڈھارہے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتے ہیں،مگر جب یہی واقعات سوشل میڈیا کے توسط سے منظرعام پر آتے ہیں تو اپنی شرمندگی مٹانے کیلئے محض شکایت درج کر لیتے ہیں۔بسااوقات ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں ملزمین کے بجائے متاثرین کے خلاف کارروائی میں جلد بازی سے کام لیتے ہوئے انہیں گرفتار کیاگیا ہے۔ مسلمانوں اور دلتوں پر مظالم کے کئی واقعات سامنے آنے کے باوجود حکومت سورہی ہے۔پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماوؤں کی طرف سے آواز بلند کیے جانے کے باوجود’نام نہاد گئو رکشک‘ تنظیم کے کارکنوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوپا رہی ہے، جس کی وجہ سے شرپسندوںکے حوصلے تو کافی بلند ہیں، مگر مظلومین کے درمیان یہ پیغام بھی جا رہا کہ ایسے لوگوں کو حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے ،اگر ایسا نہیں ہوتا تو سرعام مشق ستم بننے والے نوجوانوں کو بر قت انصاف مل جاتا اور اس قسم کے واقعات جس میں خواتین کو بھی نہیں بخشاجا رہا ہے پر قدغن لگنی شروع ہوجاتی۔ابھی گجرات کے اونا میں دلتوں کی اور مدھیہ پردیش میں دو مسلم خواتین کی سرعام پٹائی کا معاملہ تھما بھی نہیں تھا کہ ہفتہ (۳۰؍ جولائی) کو ایک اور دل دہلا دینے والا ویڈیو سامنے آگیا، اس ویڈیو میں بھی ’ گئو رکشک‘ سے جڑے لوگ ایک نوجوان کو بڑی بے رحمی سے پیٹ رہے ہیں، ایک نوجوان کے ہاتھ میںپستول بھی ہے،یہ ویڈیو راجستھان کا بتایا جا رہا ہے۔قابل غور ہے کہ ملزم نوجوان کے بی جے پی سے منسلک ہونے کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے،کیوں کہ سڑک پرانسانیت کو شرمسار کر رہے اس واقعہ کو انجام دینے والوں میں سے ایک نوجوان بی جے پی کے رہنما و مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کے ساتھ ایک تصویر میں نظر آرہا ہے۔ویڈیو میںمتاثر نوجوان خود کو بچاتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہا ہے، لیکن وہ لوگ اسے مسلسل پیٹ رہے ہیںاور نازیبا کلمات کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ آپس میں یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ منہ پر نہیں مارنا۔قریب میں کھڑی ایک موٹر سائیکل کی ڈگی میں گوشت رکھا ہوا بھی دکھایا گیا ہے، یہ ویڈیو کہاں کا ہے فی الحال واضح نہیں ہے، لیکن راجستھان کا بتا کر سوشل میڈیا پر اسے شیئر کیا جا رہا ہے۔اس واقعہ کے دوسرے دن(۱۳؍جولائی کو) مشہور نیوز چینل این ڈی ٹی وی نے اپنی ایک خصوصی اسٹوری میں سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے گئورکشکوں کی غنڈہ گردی کا پردہ فاش کیا ہے۔مہاراشٹر کے پنے میں پیش آنے والے اس واقعے میں بھی پولیس بے بس ہے اور بھگواگردوں کا یہ ٹولہ پولیس اسٹیشن میں گھس کر جانوروں کے خلاف مظالم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کراتا ہے اور پولیس اسی رپورٹ کی بنیاد پر کارروائی کرتی نظر آرہی ہے۔اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود دلتوں کے نام کی روٹی کھانے والے اور خود دلت ہونے کی دہائی دینے والے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے اب تک کوئی بیان نہیں آیا ہے۔ظاہر ہے وہ بھی کسی کے حکم کے محتاج ہیں اور جب تک سنگھ کی طرف سے انہیں کوئی اشارہ نہیں مل جاتا اس وقت لب کشائی نہیں کریں گے۔
ملک بھر میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات انجام دینے والے عناصر کو کن لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے اور اس خطرناک کھیل کا سلسلہ کب ختم ہوگا یہ کہنا مشکل ہے،کیوں کہ ابھی اترپردیش میں اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں، اس لئے کہا جا رہا ہے کہ یہ سب ووٹروں کو پولرائز کرنے کیلئے کیا جارہا ہے،مگر اہم سوال یہ ہے کہ جموں وکشمیر اور ہماچل پردیش سمیت کئی ریاستوں کی سرحدوں پر دشمنوں سے بر سرپیکار ملک کیلئے اندرون خانہ مچ رہے اس خلفشار اور اس بے چینی سے کس کو فائدہ ہورہا ہے، اس پر بھی غورو فکر کرنے کی ملک کے حکمرانوں کو اشد ضرورت ہے۔چوں کہ پاکستان جیسا ملک ہم پر ہنس رہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور دلتوں پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں،اقلیتیں نہ گھر میں اور نہ باہر، کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں،عدم برداشت کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔کتنے شرم کی بات ہے کہ امریکہ باربار یہ کہہ کر دبے زبان میں انتباہ دے رہا ہے اور عدم تحمل اور تشدد پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے حکومت ہند سے کہہ رہا ہے کہ شہریوں کی حفاظت اور مجرموں کو سزا دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے ایک بار پھر کہا کہ ہم ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے اور پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔اس جگ ہنسائی کے باوجودمسلم اور دلتوں پر ظلم و تشددکے واقعات میں اضافہ اس بات کاصاف عندیہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سیاسی پناہ حاصل ہے اور ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی فصلیںباضابطہ اگائی جارہی ہیںاورکشت خون کا ماحول گر م کرکے ہندوستان کے طول و عرض پرحکمرانی کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی میںسینئرسب ایڈیٹر ہیں۔)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in
Comments
Post a Comment