اب دلّی دورنہیں!



ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب

   اس وقت ملک کے جو سیاسی حالات ہیں اس پر غور و خوض کریں تو ایسا نہیں لگتا ہے کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں قومی راجدھانی دہلی پر قبضہ کرنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے کوئی مشکل کا م ہو۔خاص طور پر پی ایم مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ کی موجودگی میں بی جے پی اپنے اس ہدف کو بہ آسانی حاصل کرلے گی۔کرناٹک،گوا اور مغربی بنگال میں جو سیاسی اتھل پتھل جاری ہے اور جس طرح سے اپوزیشن پارٹیوں کی وکٹیں گر رہی ہیںاور ہر سطح پربی جےپی کا اسکور روز افزو بڑھ رہا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے جن ریاستوں پر نشانہ سادھ رکھا ہےاگر موجودہ صورت حال برقراررہی تو کسی پارٹی میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ کنول کو کیچڑ میں گاڑ سکے۔
کانگریس پارٹی اس وقت اپنے برے دور سے گزر رہی ہے اس لئےآنے والے دنوں میں ہندوستان پر سب سے زیادہ حکومت کرنے والی یہ پارٹی کچھ کر سکے گی یہ کہنا ’دور کی کوڑی‘ ہے۔بغیرسربراہ کے ایک گھر اور خاندان آگے نہیں بڑھتا ہے تو ملک کی اتنی بڑی سیاسی پارٹی بغیر کیپٹن کے کس طرح سے صحیح رخ پر چلے گی اور اس کا کام کاج کیسے دھنگ سے چلے گا۔راہل گاندھی،سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی پر لوگوں کی نگاہیں ہنوز مرکوز ہیں مگر یہ رہنمافی الحال اپنا دامن بچاتے پھر رہے ہیں ۔آنے والے دنوں میں کیا اسٹینڈلیں گےیہ وقت ہی بتائے گا ،ویسے بی جے پی  سے پنجہ آزمائی کے لئے کانگریس کی باگ ڈوڑ کس ہاتھ میں جائے گی اس کے لئے کانگریس کے لیڈران مسلسل جدو جہد کر رہےہیں۔کچھ بڑے رہنما جہاں راہل گاندھی کو منانے کی کوشش میں مصروف ہیں وہیں کچھ رہنما انکی حمایت میں استعفیٰ دے رہےہیں۔کانگریس کےلئے سب سے پریشان کن بات پارٹی کا اندرونی خلفشار ہے۔یہی وجہ ہےکہ اگر سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا نگریس کےصدر بنائے جاتےہیں جیسا کہ بات چل رہی ہےتو یہ ان کے لئے کانٹوں بھرا تاج  ثابت ہوگا۔حالانکہ ان کے ساتھ پارٹی کے چار بڑےلیڈران سچن پائلٹ،جیوترادتیہ سندھیا،مکل واسنک اور ششی تھرور بھی معاون ہوں گے ۔تاہم پارٹی کیلئے لیڈروں میں انتشار کا خاتمہ اولین ترجیح ہونی چاہئے کیوں کہ عام انتخابات میں مدھیہ پردیش،راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اقتدار ہاتھ میں رہتے ہوئے بھی پارٹی کا جو بیڑا غرق ہوا ہے اس میں آپسی اختلافات سب سے اہم وجہ رہی ہے۔صحیح بات یہی ہے کہ کانگریس کی اسی حالت نے بی جے پی عروج بخشا ہے ورنہ اپنی پہلی اننگ میں فلاپ رہنے کے باوجودبھارتیہ جنتا پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی نہیں ملتی۔ہم یہ بھی مانتےہیں کہ یہ عہد بی جے پی کا عہد زریں ہے مگر یہ اسے تحفہ میں ملا ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔آرایس ایس اور بی جےپی مسلسل کامیابی کے باوجود تھکی نہیں وہ گاؤں گاؤں میں اپنی تنظیم کو مختلف ہندتوادی ایجنڈوں کے سہارے مضبوطی فراہم کرنے کیلئے نت نئے پروگرام بناتی رہی جبکہ اپوزیشن پارٹیاں زمینی حقائق سے کوسوں دور رہیں اور عرش پر بیٹھ کر فرش کے منصوبے بناتی رہیں ،ان پارٹیوں نے  زمین پر قدم رکھنا ضروری نہیں سمجھا۔خیال یہی تھاکہ ذات پات اور برادری کی بدولت اس بار بھی بازی مار لے جائیں گے۔ان کے وہم میں گمان میں بھی نہیں تھاکہ بی جےپی اتنی بری مات دے گی کہ وہ کہیں کے نہیں رہ سکیںگے۔لوک سبھا انتخابات میںشکست فاش ا ور آپسی اختلافات نے کانگریس پارٹی کو بےدم کردیا ہے۔اس لئے بی جے پی کانگریس پر توجہ کم دے رہی ہے،اس کا اصل ہدف دہلی اور مغربی بنگال ہے۔کرناٹک تو کانگریس اور جے ایس کے ہاتھ سے اسی وقت نکل گیا جب عام انتخابات میں دونوں پارٹیوں کے بڑے بڑے رہنما ہار گئے۔مودی حکومت ایک میں لوک سبھا میں اپوزیشن کی ذمہ داری نبھانے والے کانگریس کے سینئر رہنما کھڑگے بھی اپنی سیٹ نہیں بچا سکے۔اگر عام انتخابات میں کرناٹک میں کانگریس کی حالت اتنی خراب نہیں ہوتی تو آج ریاست میں جو سیاسی ہلچل ہے اس مخلوط حکومت محفوظ رہتی۔
مغربی بنگال کی بات کریں توکبھی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے بہت خاص رہ چکے مکل رائے ہی ٹی ایم سی کے لئے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں۔عام انتخابات میں مغربی بنگال میں بی جے پی آرایس ایس کی مدد سے بھلے ہی  ۱۸ پر سیٹوں پر کامیاب ہوگئی ہو مگر اس میں مکل رائے کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔کیوںکہ زمینی سطح پر مکل رائے پکڑ ہے اور وزیراعلیٰ ممتابنرجی کے وہ بہت قریب بھی رہ چکے ہیں اس لئے دیدی کا ہر داؤ ناکام ثابت ہوا اور مکل رائے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق بی جے پی کو مغربی بنگال میں ایک مضبوط پلیٹ فارم دینے میں کامیاب ہوگئے۔ایک بار پھر مکل رائے نے یہ دعویٰ کرکے  مغربی بنگال کی سیاست میں کہرام برپا کردیاہےکہ۱۰۷  ؍اراکین اسمبلی بی جے پی میں شامل ہوں گے، ہمارے پاس ان ممبران اسمبلی کی فہرست ہے اور وہ مسلسل رابطے میں ہیں۔مکل رائے کے اس دعوے میں تھوڑی بہت بھی سچائی ہے تو یہ ممتا دیدی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے چونکہ بی جے پی دیدی کے اس قلعہ میں نقب لگانے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔
 بی جے پی کے لئے قومی راجدھانی دہلی پر قبضہ سب سے بڑا چیلنج ہے، لوک سبھا کی ساتوںسیٹوں پرشاہانہ جیت حاصل کرنے کے بعد اب بی جے پی کے چانکیہ کی نگاہ عام آدمی پارٹی کا قلعہ مسمار کرنے پر پوری طرح مرکوز ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہےکہ حکمراں جماعت عآپ کو چوطرفہ گھیرنے کیلئے جو حکمت عملی بنائی گئی ہے اس پر سرگرمی سے عمل کیا جا رہا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں ملی کامیابی کے باوجود بی جے پی کی ایک خاص حکمت عملی یہ بھی ہےکہ عام آدمی پارٹی کے زیادہ سے زیادہ  اراکین اسمبلی کوتوڑکرانہیں اپنی طرف کیا جائے۔یہ کام بی جے پی کے لئے بہت آسان ہے ،ملک کی کئی ریاستوں میں حکمراں جماعت کے اراکین کو توڑنے میں بی جے پی کامیاب بھی ہوئی ہے۔اس لئے دہلی میں بھی یہ فارمولہ اپنایا جائےگا۔ اسمبلی انتخابات کے پیش نظرتنظیمی سطح پر بھی منصوبے بنائے جارہے ہیں ۔اس تعلق سےکونسلر اور پارٹی کے سینئر عہدیداروں کو اہم ذمہ داریاں دینے کے ساتھ ساتھ ریاستی قیادت میں کچھ تبدیلی بھی ہوسکتی ہے۔بی جے پی اس بار کسی بھی قیمت پر دہلی کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے جدوجہدکررہی ہے۔’’ ملک میں مودی، دہلی میں بی جے پی، تبھی بنے گی بات، دہلی چلے گی مودی کے ساتھ‘‘۔اسمبلی انتخابات کیلئے فی الحال یہی نعرہ بنایا گیاہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ بی جے پی اپنے کسی لیڈر کو وزیر اعلی کے چہرے کے طور پر آگے رکھ کر نہیں بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے نام پر ہی ووٹ مانگے گی۔
لوک سبھا انتخابات میں ساتوں سیٹوں پرشاندار جیت  حاصل کرنےکے بعد پارٹی میں ریاستی صدر منوج تیواری کا قد بڑھ گیا ہے،اعلیٰ قیادت کوبھروسہ ہےکہ منوج تیواری دہلی کے سامبلی انتخابات میں بھی کوئی کرشمہ دیکھا سکتےہیںمگر بی جے پی کے سینئر لیڈر وجے گوئل بھی وزیر اعلی کی دوڑ میں مضبوط دعویدار  ہوسکتے ہیں،ایسے میں پارٹی قیادت تیواری اور گوئل میں سے کس پر داؤ کھیلے گی یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ 
(مضمون نگار انقلاب دہلی میںسینئرسب ایڈیٹر ہیں۔)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in



Comments

Popular posts from this blog

लोगों के दिल में आज भी धड़कते हैं जेपी

کوئی بھی کام حسن نیت کے بغیر ترقی اوردرجہ کمال کو نہیں پہنچتا