ملک، مودی سرکار اور موب لنچنگ

Dr Shahabuddin Saqib Qasmi
’’جسے ہم بھیڑ کہتے ہیں وہ بھیڑ نہیں ہے، دراصل وہ منظم گروہ ہے اور یہ سارے واقعات یوں ہی نہیں ہو رہے ہیںکہ اچانک کسی کو غصہ آگیا اور اس نے پیٹ دیا،یامحض شک کی بنیاد پر حملہ کردیا،بلکہ اس کی تیاری کی جاتی ہے، اس کے لئے پہلے سے انتظامات کیے جاتے ہیں،اس کی پوری مشینری ہے،ایک تنتر ہے جو اس بھیڑ کو بناتا ہے اور اس کے بعد اسے شکل یہ دی جاتی ہےکہ یہ منظم نہیں تھا بلکہ بھیڑ کو اچانک غصہ آگیا یا اسے غلط فہی ہو گئی اور اس نے اس پر حملہ کردیا‘‘۔
’دی وائر‘ کی صحافی میناکشی تیواری سے ایک بات چیت کے دوران مذکورہ خیالات کا اظہار دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر جناب اپوروانند نےکیا۔اس وقت ملک میںمسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہےاور جس طرح سے ایک نظریہ سے اختلاف رکھنے والی شخصیات کو نشانہ بنایا جا رہے اس کو مدنظر رکھیں اور جناب اپوروانند صاحب کے خیالات پر غور کریں تو ایک بات جو سب سے پہلے سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ ہندوستان کو موب لنچنگ(ہجومی تشدد)کے میدان میں تبدیل کیا جارہاہے ۔ملک کے سیاست داں اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے باضابطہ کا شت کررہے ہیں اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر اس کی ’فصل کاٹ‘ رہےہیں۔افسوسناک پہلو یہ ہےکہ آج ملک بھر میں اس گھناؤنے اور انسانیت سوز کھیل کو حکمرانوں کے ذریعہ فروغ دیاجارہا ہے۔یہی وجہ ہےکہ شرپسندعناصر کے ذریعہ انجام دیے گئے ہجومی قتل کے ایک واقعہ پر بحث کررہے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ اس قضیہ کے نتیجہ پر پہنچا جاتا دوسرا واقعہ پیش آجاتاہے اور سب کی کہانی تقریبا ایک جیسی ہی ہو تی ہے جس کا تذکرہ اپوروانند نے کیا ہے۔
 ہندوستان کے حکمرانوں کی حرکات و سکنات کو دیکھنےکے بعد شک و شبہ کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہےکہ بے قصوروں کو سرعام پیٹ پیٹ کر ہلاک کیے جانے کے یہ واقعات اچانک ہو رہے ہیں۔اب تو مودی حکومت کے ایک وزیر  ارجن رام میگھوال نےدوٹوک کہہ دیاکہ’’ مودی جی جتنا مشہور ہوتے جائیں گے، موب لنچنگ کے واقعات اتنے ہی زیادہ بڑھتے جائیں گے۔ بہار انتخاب کے دوران یہ ’ایوارڈ واپسی‘ تھا، یو پی انتخاب کے وقت یہ موب لنچنگ تھا اور۲۰۱۹ء کے انتخاب میں یہ کچھ اور ہوگا۔ہم موب لنچنگ کی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ پہلا ایسا واقعہ نہیں ہے۔ آپ کو تاریخ میں جانا پڑے گا، کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسے کسے روکنا چاہیے؟۱۹۸۴ء میں سکھوں کے ساتھ جو ہوا وہ ملک کی تاریخ میں سب سے بڑا موب لنچنگ تھا۔‘‘
حکمراں طبقے کی یہی وہ سوچ ہےجس کی وجہ سے تشددکے ان واقعات میں کوئی کمی نہیں آرہی ہےبلکہ دن بہ دن بڑھ تے جا رہے ہیںاور جھارکھنڈ کے پاکوڑ میں۱۸؍جولائی۲۰۱۸ء کو۷۹؍سال کے آریہ سماجی،بندھوا مزدوروں کے لئے طویل جنگ لڑنےوالے  اور۲۰۰۴ء میں نوبل جیسے باوقار ’رائٹ لائیولی ہوڈ ایوارڈ‘ سے سرفراز جناب سوامی اگنی ویش بھی اسی منظم اور  اسپانسر بھیڑ کی تشدد کا شکار ہو ئے۔
غورکرنے کی بات یہ ہےکہ انہیں بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے لوگوں نے اس وقت اپنا شکار بنایا جب صرف تین گھنٹے قبل ہی ملک کی سب سے بڑی عدالت نے مرکزی حکومت سے کہا کہ اس ملک کو منظم بھیڑ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، حکومت ہجومی تشدد کے خلاف الگ سے قانون بنائے۔عدالت نے یادلایاکہ سیکولرازم آئین کا اٹوٹ حصہ ہے، اس کا تحفظ کیا جائے۔لیکن عدالت جو بات کہہ رہی ہے اور آئین کی کتاب میں جو بعد لکھی ہوئی ہے، اسے ملک کا ایک خاص طبقہ اب نہیں مانتا۔ اس طبقے کا ڈائیلاگ میں کوئی یقین نہیں ہے، بحث میں بھی اس طبقے کی کوئی دلچسپی نہیں۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ یا تو آپ میری بات مانیے،میری ہاں میں ہاں ملايے، نہیں تو لاٹھي،ڈنڈے اور گولی کھانے کے لئے تیار ہو جایے۔بدقسمتی یہ ہےکہ ملک کے اس طبقے کو کہیں نہ کہیں حکومت اوراقتدار پر قابض لوگوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔یہی وہ طبقہ ہے جس نےملک کی بھاگ ڈور ہاتھ لگتے ہی دیش بھگتی شوشہ چھوڑا تاہم اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے دیش بھکتی کی آڑ میں اصل کھیل کیا ہے۔اب تو بہت حد تک یہ بات واضح ہو چکی ہےکہ اسے ملک سے نہیں ،ملک کے باسیوںسے نہیں صرف اپنے مخصوص نظریہ اور اقتدار سے محبت ہے۔ اس طبقہ کے قول و عمل میں کتنا تضاد ہےوہ  اس پارٹی  اور فکر سے تعلق رکھنے والےبڑے سے لے کر ادنیٰ لیڈر تک کے رویہ سے جگ ظاہر ہے۔
’نوبت بہ ایں جارسید‘کہ سیاست دانوں کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہےکہ’ مودی راج لنچنگ راج‘ بنتا جا رہا ہے۔اور اس ملک میں انسانوں سے زیادہ جانورں کی جان کی قیمت ہے۔اس سچائی کا اعتراف بی جے پی کی ہمنوا جماعتوں کے لیڈروں نے بھی کیا ہے، جبکہ کانگریس کے سینئر رہنما ششی تھرور جن کے دفتر پر گزشتہ دنوں بھیڑ نے حملہ کر دیا تھا ۔یہاں تک کہہ دیا کہ’’ اس ملک میں کئی جگہوں پر تو مسلمان ہونے سے بہتر گائے ہونا ہے‘‘انہوں نے لکھا ہےکہ’’ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، ہندوتوا کا پرچم لے کر چلنے والی طاقتوں کی وجہ سے ملک میں کئی جگہ تشدد ہوئے ہیں۔ 2014 کے بعد سے اب تک اقلیت مخالف تشدد میں 389 لوگ مارے جا چکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔
بی جے پی حکومت میں بطور خاص اس وحشیانہ عمل کو خوب فروغ مل رہا ہے۔آپ دیکھیں کہ کس طرح سے بھیڑ تشدد پر آمادہ ہے ،اسے نہ تو پولیس کا خوف ہے اور نہ ہی قانون کا۔ جس دن سوامی اگنی ویش کی پٹائی ہوئی،اس سے ایک دن پہلے عصمت دری کے ملزمان کو وکلاء کے ایک گروہ نے عدالت کے احاطے میں پیٹ دیا۔ گزشتہ دنوں حکومت کے ایک وزیر نے ضمانت پر چھوٹے موب لنچنک کے ملزمان کا ہار پھول سے استقبال کیا۔ گوری لنکیش یا كلبرگي کے قتل کے معاملے تو پہلے ہی شہ سرخیوں میں آ چکے ہیں۔یہ سب کیا ہیں؟ غنڈوں کو قانون پر اعتماد نہیں ہے، یہ تو عام بات ہے، لیکن پولیس اور وکلاء کو بھی قانون پر اعتماد نہیں ہے، وزیر کو بھی تشدد سے پریم ہے۔ بھیڑ کسی بھی آدمی کو بچہ چور ہونے کے شک میں مار دے رہی ہے، توکہیں گئوکشی کے شک میں قتل ہو رہا ہے۔ہر کوئی اپنی ڈيوڑھي پر انصاف کر رہا ہے۔
مانسون اجلاس کے دوسرے دن وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ماب لنچنگ جیسے حساس معاملے پر یہ کہہ کر اپنا دامن جھاڑنے کی کوشش کی کہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے حادثات ہوتے رہے ہیں۔انہوں نے ماب لنچنگ کو روکنے کی پوری ذمہ داری ریاستی حکومتوں پرڈال دی، لیکن یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر داخلہ کو اس بات کی بالکل بھی خبر نہیں ہے کہ جن ریاستوں میں اس طرح کی واردات ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں  وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہی حکومت ہے۔گویا کہ وزیرداخلہ جان بوجھ کر اس معاملے سے خود کوبچانے کی کوشش کررہے ہیں۔کب تک عوام کو جھوٹے اعدادوشمار اور پر فریب نعروں سے ٹھگتے رہیں گے۔انہیں  کانگریس کے صدر راہل گاندھی کی یہ بات دل سے مان لینی چاہئے کہ اگر ہم نفرت کو شکست دینا چاہتے ہیں تو ہر طرف محبت پھیلانی پڑے گی۔

 

Comments

Popular posts from this blog

BLANKETS DISTRIBUTED TO POOR IN MUZAFFAR PUR (2015)by khidmat e khalq trust india

اب دلّی دورنہیں!

Blanket distribution 2019--2020