خیموں کا شہر مظفر نگر

مبصر: نوراللہ جاوید قاسمی
ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی سیاسی اغراض و مقاصد کیلئے انسانی لاشوں کا ڈھیڑ جمع کرنا سیاست دانوں کا مشغلہ رہا ہے ۔سالوں سے ایک ساتھ رہنے والے ہندئو اور مسلمان کے درمیان ضرورت اور وقت کے تقاضے کے مطابق محبت اور نفرت کی دیواریں کھڑی کی جاتی رہی ہیں ۔سچ کہا ہے کسی نے فرقہ وارانہ فسادات ہوتے نہیں ہیں، بلکہ نفرت کی چنگاری کو ہوا دی جاتی ہے ،پھر اس کے بعد انسانی لاشوں کا ڈھیڑ جمع کرکے اقتدار کے زینے طے کیے جاتے ہیں ۔
اس طرح کے کاروبار سے فصل کاٹنے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کی وجہ سے انسانیت کس قدر ذلیل وخوار ہوتی ہے اور وطن عزیزہندوستان کی دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی ۔ اس کے نتیجے میں زندگیاں کتنی مشکل ہوجاتی ہیں ،ہزارہا ہزارگھر برباد ہوجاتے ہیں ،ہنستا کھیلتا خاندان بکھرجاتا ہے ۔کل تک پختہ گھروں میں رہنے والے اچانک خیموں میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی کی مرتب کردہ کتاب ’’خیموں کا شہر مظفر نگر ‘‘گزشتہ سال کے اخیر میں پارلیمانی انتخابات میں سیاسی برتریت کیلئے نفرت کے سوداگروں نے فرقہ وارانہ تشدد کی ایک ایسی چنگاری سلگائی جس کی نذر سیکڑوں افراد ہوگئے ،حیوانیت اور درنگی کا ایسا ننگا ناچ کیا گیا کہ سیکڑوں مائوں اور بہنوں کی عزت و عصمت تار تارہوگئی ، ہزاروں افراد اپنا گھر و مکان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ۔
’’خیموں کا شہر مظفر نگر‘ ‘دل کو دہلادینے والی ایک ایسی داستان ہے اس کو پڑھنے والے کا دل دہل جاتا ہے ، اسے اپنے آپ کو انسان ہونے پر شرم آنے لگتی ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا کا باشی ہے جہاں سیاست کیلئے لوگوں کی جان و مال ، عزت و آبرو کی کوئی قدر نہیں ۔یہ کتاب درد ر بھٹکنے والے انسانوں کی بے بسی کی داستان اور جمہوری و سیکولر ملک کے سیاست دانوں کے گھنائونے جرائم کا دستاویزی ثبوت ہے ۔یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ مستقبل میں جب بھی کوئی مورخ جدید ہندوستان کی تاریخ مرتب کرے گا تو اسے اس کتاب کا حوالہ ضرور دینا ہوگا۔ ہندوستان سماجی اور معاشی سطح پر ترقی کی بلندیوں کو کیوں نہ طے کرلے ، ملک ترقی پذیری سے نکل کر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کیوں نہ کھڑاہوجائے مگر اس کے دامن میں فرقہ واریت کے جو کالے دھبے ہیں وہ ہمیشہ ہندوستان کو شرمسار کرتے رہیں گے اور یہ سیاہ دھبے ان لوگوں کی وجہ سے لگے ہیں جو خود کو سب سے بڑا محب وطن ہندوستانی ہونے کے دعویدار ہیں۔
یہ کتاب نہ کوئی ڈرامہ ہے اور نہ مرتب کی ذہنی اختراع کا کمال، بلکہ یہ کتاب زندہ انسانوں کے احساسات کی ترجما ن اور انصاف پسند لوگوں کی گواہی ہے ۔ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب کی کتاب مظفر نگر فسادات پر انگریزی، ہندی اور اردو اخبارات میں لکھے گئے انصاف پسندوں کے مضامین کا ایک مجموعہ ہے۔مختلف خیالات و نظریات کے حامل افراد کے متنوع اور مختلف زاویہ سے مظفر نگر فسادا ت کے جائزہ پرمبنی مضامین نے اس کتاب کے حسن کو دوبا لا کردیا ہے ۔
اس کتاب میں نہ صرف مظلوموں کی آہ و بکاکا ذکرہے ،بلکہ اس کتاب میں سیاست دانوں کی بے ضمیر ی ، خود غرضی ،انسانی لاشوں کی توہین کا نوحہ بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملت کے غم رات دن پگھلنے والی ملی رہنمائوں کی غیر سنجیدگی ، سستی شہرت کیلئے عاجلانہ اقدامات ، سیاسی آقائوں کی خوشنودی کیلئے ملت کے آنسووں کے سودا پر بھی ماتم کیا گیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ اس کتاب میں مستقبل میں ہندوستان کوگاندھی اور آزاد کے خوابوں کے مطابق نفرت وعداوت سے پاک ہندوستان کی تعمیر کا ایک مکمل نقشہ بھی ہے ۔الغرض یہ کتاب فرقہ وارانہ فسادات کے صرف ایک پہلو کی نشاندہی نہیں کرتا ہے، بلکہ ہمہ جہت پہلو پر روشنی ڈالتی ہے ۔یہ کتاب صرف کتاب نہیں بلکہ جدید ہندوستان کاایک مکمل باب ہے ۔
اس کتاب میں شامل تمام مضامین قیمتی ہیں،مگر مجھے ذاتی طور پر مشہور صحافی آصف ریاض کا مضمون ’’مظفر نگر کیمپ :ڈوپتے ابھرتے ہیں بات بات پر چہرے‘‘سب سے زیادہ متاثر کیا ۔میرے نظریہ کے مطابق اس کتاب کے قاری کو اس مضمون کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے مگراس مضمون ایک پیرا گراف کوحوالہ دے کر اپنا تبصرہ ختم کرتا ہوں۔
’’میں ہندوستانی مسلمانوں سے کہوں گا کہ گائوں کی طرف دیکھو،یعنی (Look towards villages)ہمارے مسلم ادارے جو شہروں اور دارالحکومت میں کام کررہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ گائوں میں جاکر کام کریں ،یہ المیہ ہے قومی راجدھانی میں سینکڑوں مسلم ادارے اور تنظیمیں ہیں،لیکن شہر سے محض 100کلو میٹر کے فاصلہ پر مظفر نگر یا میوات کا سفر کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہاں آج بھی لوگ اسٹین ایج میں رہ رہے ہیں ،ایسا کیوں ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جماعتیں قومی راجدھانی میں بیٹھ کر تمام معیاری سہولتوں کا فائدہ اٹھا رہی ہیں ،و ہ گائوں کی طرف نہیں دیکھتی ہیں،یہ تنظیمیں انجمنوں کا جزیرہ بنارہی ہیں اور پڑوسیوں کیلئے کچھ نہیں کرتیں ‘‘۔
مبارک باد کے مستحق ہیں ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی جنہوں نے اپنی صحافتی مصروفیت سے وقت نکال کر مظلوموں اوربے کسوں،سسکتی انسانیت، بے سہارا بچوں اور ضعیف و بوڑھوں کے خشک ہوتے آنسوئو ںکی داستان الم کو ایک زبان دیدیا ہے جو رہتی دنیا تک مردہ انسانوں کی ضمیر نہ صرف جگائے گی، بلکہ انصاف پسندوں کو بھی کچوکے لگائے گی ان کا انصاف کس کام کا؟اس کتاب کے ناشر حرا انٹر نیشنل اکیڈمی انڈیاکے سربراہ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی بھی شکریہ کے مستحق ہیں بروقت اس کتا ب کی اشاعت کا فیصلہ کیا 

Comments

Popular posts from this blog

BLANKETS DISTRIBUTED TO POOR IN MUZAFFAR PUR (2015)by khidmat e khalq trust india

اب دلّی دورنہیں!

Blanket distribution 2019--2020